کالمز

علامات ظہور اور شرائط ظہور میں فرق

مھدی آخوندزادہ

اللہ تعالی نے قرآن مجید ارشاد فرمایا:**

*ترجمہ:* (اسراء آیت 71)ہم قیامت کے دن تمام انسانوں کو اسی کے امام (پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے،*رسول اکرم ص نے فرمایا*:ترجمہ*جو بھی اپنے زمانے کی امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جہالت کی موت مرتا ہے،سب سے پہلے ایک بات کی وضاحت کو میں بہت ہی ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے،کہ آجکل سوشل میڈیا پے ایک چیز کو بہت ہی ضرور دے کر استعمال کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہر *”ولادت”* کیلئے لفظ *”ظہور”* کو استعمال کرنا،ہمارے جوانوں کو دشمن کے چال سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے،یہ بھی دشمن کا ایک حربہ ہے،اسکو استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ظہور اور ولادت میں کوئی فرق پیدا نہ کرسکیں،خصوصا اس لفظ ظھور کو ولادت امام زمان علیہ السلام کیلئے بہت استعمال کیا جا رھا ہے لہذا میں نے ضروری سمجھا کہ ان دونوں کے کیا جو فرق ہے اس کو پہلے بیان کروں،

*ظھور اور ولادت میں فرق*

1- *کلمہ ْظہْور* مصدر ہے،اس کا معنی پوشیدہ کے بعد روشن ہونا،واضح ہونا،

*کلمہ ظھور کا لغوی معنی*:

آشکارہونا،تجلی،جلوہ،طلوع،

وقوع، یہ سب ظھور کا ہم معنی ہے،

اور *ظھور* کا متضاد: *خفا* ہے جس کا معنی پوشیدہ،غروب،غیبت، ہے اور ظھور کا مفہوم یہودیت،مسیحیت اور زرتشی میں بھی پایا جاتا ہے لیکن اس کا مفہوم مکتب تشیع کے پاس یہ ہے،

امام مھدی علیہ السلام کا مرحلہ غیبت سے نکلنا،پس جو چیز پوشیدہ ہو پھر نکلے تو وھاں لفظ ظھور استعمال ہوتا ہے،*دوسری بات* لفظ ظھور ہمارے ائمہ میں سے صرف امام زمان علیہ السلام کے لیے استعمال ہوا ہے، وہ بھی آپ کے ولادت کے لیے استعمال نہیں ہے بلکہ آپ حکم خدا سے پردہ غیب میں ہے،آپ ہمارے آنکھوں سے پوشیدہ ہے جب اللہ تعالی کا حکم ہوگا تو آپ ظھور کرے گا،اور تو 15 شعبوں کو اپکی ولادت ہے ظھور نہیں ہے، اگر ہم ولادت کے لیے لفظ ظھور استعمال کریں پھر جب ظھور کرے گا تو کیا کہیں گے،*تیسری بات*لفظ ظھور قرآن مجید میں 11 مرتبہ استعمال آیا ہے ہر ایک کا الگ الگ معنی ہے،کلمہ ظھور عربی لفظ ہے اور یہ اردو،فارسی میں بغیر کسی تبدیلی کے استعمال ہوتا ہے،*کلمہ ولادت* عربی میں کلمہ *الولادۃ* استعمال ہوتا ہے لیکن زبان اردو اور فارسی میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے*ولادت*ولادت، مولود،میلاد،تولد یہ سب ولادت کا ہم معنی ہے ملولادۃ*

اس کا معنی بچہ کا ماں کے پیٹ سے ذندہ نکلنا،پس جو بھی ماں کے پیٹ سے نکلے اسکو ولادت کہا جاتا ہے لیکن پوشیدہ ہو پھر ظاھر،آشکار ہو جائے تو اسکو ظھور کہا جاتا ہے

اور لفظ *ولادت* کا متضاد * *مرگ*، *مرجانا* ہے ہمارے ائمہ کی ولادت ہوتی ہے ظھور نہیں ہوتی،ہمارے بہت سے برادران ائمہ کی ولادت کے لیے لفظ ظھور استعمال کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے،

*میرے بھائیو* کبھی کھبی لاپروائی میں انسان ایسے الفاظ کو استعمال کرتے ہیں بعد میں وہی ہمارے عقیدہ کے بلکل مخالف ہوتا ہے لیکن ہم ایسے ہی لاپروائی میں استعمال کرتے ہیں،

ایسے الفاظ کو چند جاھل منبر پر جا کے استعمال کرتے ہیں اور نیچھے سے واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتی ہے، *میرے بھائیو*اپ لوگ ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہیں،اس وقت ہمارے مذہب تشیع پر ہر طرح سے حملہ ہو رھا ہیسوشل میڈیا کے ذریعہ، واٹساب، فیزبک، *بقول رھبر انقلاب*اس وقت ہمارے جوانوں کو ہوشیار اور بیدار رہنے کی اشد ضرورت ہے،اور بابصیرت ہونے کی ضرورت ہے اس وقت سوشل میڈیا، واٹساب، فیزبک انکے ذریعے ہمارے مذھب، ہمارے عقائد پر حملہ کیے جارہے ہیں لہذا ہم سب کی ذمہ داری ہے اپنے مذھب کا دفاع کریں اور عقائد کا دفاع کریں،آج کا دور میڈیا کا دور ہے آپ کا ایک جملہ،ایک آرٹیکل دنیا کے کونے کونے میں پہنچتے ہیں،قرآن اور روایات دونوں کی نگاہ میں مسئلہ امامت کو بڑا اہمیت حاصل ہے،قرآن کریم نے خود کے اندر دو قسم کے پیشواؤں کام نام لیا ہے

*ایک امام نور و ہدایت ہے*

(سورہ انبیاء، ایت73)

وہ پیشوا جو ہمارے حکم اور دستور کے ذریعے لوگوں کی ھدایت کرتا ہے، *دوسرا امام نار اور ضلالت ہے*(سورہ قصص،ایت41) ترجمہ وہ پیشوا جو لوگوں کو جہنم کی طرف لیبلاتا ہے، اور یہ لوگوں کو خوف دلا کر اپنا مطیع اور فرمانبرداد بنانا چاہتے ہیں،*امام نور اور ھدایت کی کچھ خصوصیات*:1: اللہ تعالی کے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں، اپنے من سے نہیں،2: ہمشیہ نیک اور اچھے کام انجام دیتے ہیں،

3: ہمیشہ نماز قائم کرتے ہیں، نماز کے ذریعے اللہ اور بندوں کے درمیان،رابطے کو قائم رکھتے ہیں،4: اور زکات دے ادا کرکے مخلوق کے درمیاں تنگدستی کو ختم کرتے ہیں،5: اور ہمیشہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے ییں،،6: امام نور عصمت کے مقام پر فائز ہوتا ہے،7: امام نور اللہ تعالی کی طرفسے منصوب ہوتا ہے،وہ شورا، اجماع امت کی بنا پر نہیں ہوتا، 8: امام نور مقام یقین پر فائز ہوتا ہے، مقام یقین،مقام صبر سے بالاتر ہے،9: امام نور، صبر کے مقام پر فائز ہوتا ہے،10: امام نور فیض الہی کا واسطہ ہے،11:اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر،بیٹیوں کو انجام دینے میں سبقت لے جاتے ہے،12: اس کے پاس ہر جانے کا علم ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ سلونی کا دعوا کرتے ہیں،13: سب سے بڑا شجاع اور دلیر ہوتا ہے،14: سب سے بڑا ذاھد ہوتا ہے،

*چند نکات*

1ہمیں قیامت نہیں بھولنا چاہیے، 2 قیامت کے دن لوگوں کی تقسیم بندی پیشوا اور امام کی اساس پر ہوگا،3انسان خود اپنے لیے پیشوا انتخاب کرتا ہے،4انسان اپنے پیشوا کے انتخاب میں کوتاہی نہیں کرنا چاہیے،

5??ہر انسان کی ذندگی سعادت مند اور سقاوت، بنانے میں مسئلہ امامت کا بڑا کردار ہے،عام طور پر ہم علامات اور شرائط کے درمیان فرق نہیں ڈال سکتے ہیں حالانکہ ان دونوں کے درمیاں بڑا فرق ہے،

ان دونوں کے درمیاں فرق معلوم نہیں ہونے کی وجہ سے ہم علامات ظہور کو بھی شرائط ظہور سمجھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں اپ امام ظہور کرے گا،علامات اور شرائط دونوں کا محقق،ظہور سے پہلے ہی ہوگا،جب تک یہ انجام نہیں پائے گا امام ظہور نہیں کرے گا،ان دونوں کے درمیان ایک جہت سے، اشتراک ہیں اور دوسری طرف سے،وجہ افتراق بھی ہیں،

*وجہ اشتراک*:

وجہ اشتراک یہ ہے کہ علامات ظہور اور شرائط ظہور دونوں کا تحقیق ظہور امام مھدی عج سے پہلے ہوگا اس میں کوئی شک نہیں،

*وجہ افتراق*:

ان دونوں کے درمیان کئی جہت سے اختلاف بھی پائی جاتی ہے

ان میں سے بعض اختلافی جہتوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں،

1_ امام زمان عج کا ظہور، شرائط پر موقوف اور معلق ہے اور تعلیق واقعی ہے اعتباری نہیں ہے،یعنی جب تک شرائط مھیا، امادہ نہیں ہوگا مشروط جو کہ ظہور ہے، وہ خارج میں محقق نہیں ہوگا،

لیکن علامات ظہور اس کا برعکس ہے، یعنی امام کا ظہور، علامات پر موقوف اور معلق نہیں ہے یہ تعلیق واقعی نہیں ہے،کیونکہ علامات،ظہور کے نسبت جنب کاشفیت رکھتا ہیاورصرف ایک علامت کا ظاھر ہونا،ظہور واقع ہونے سبب نہیں بنتا ہے،یعنی ظہور اور شرائط کے درمیان جو وابستگی ہے وہ واقعی ہے،لیکن علامات اور ظہور کے درمیان جو وابستگی ہے وہ کشف اور اعلام ہے،

2_علامات،ایک حوادث پراکندہ ہے جوکہ طول عصر غیبت میں پراکندہ صورت میں انجام پاتاہے،یعنی علامات،طول عصر غیبت جدا جدا اور فاصلے کے ساتھ انجام پائے گا،لیکن شرائط اسکا برعکس ہوگا، شرائط،ظہور کے وقت، متصل اور مستمر انجام پائے گا،

3_ انسان،شرائط ظہور، کے نسبت مکلف ہے،یعنی ہر انسان کی ذمہ داری ہے اور واجب ہے کہ وہ اپنے زمانے کی امام کو پہچھانے،اور اس کی فرج کے لیے دعا کرنا، اور ظہور کے لیے آمادہ ہونا،صبر کرنا،یہ سب انتظار حقیقی ہیاور یہ عصر غیبت میں مومن کی ذمہ داریاں ہے، لیکن علامات ظہور اس کا برعکس ہے انسان،علامات، کی نسبت مکلف نہیں،بہت سی روایات موجود ہے جو آخری زمانے کے حوادث اور عصر ظہور کے بارے میں ہیں، اس میں ان واقعات کا ذکر ہوا ہے اور عصر ظہور کی شخصیتوں کی مشخصات بیان ہوچکی ہے،ان میں سے بعض روایات،علامات آسمانی، زمینی،بلاء اور کچھ ناخوش حوادث ہے جو ظہور سے پہلے واقع ہوگا،جیسے جنگ،مختلف بیماریاں،طاعون،اور بعض ایسی روایات ہیں جس میں مختلف ملک کے سیاسی اور اجتماعی حالات کی طرف اشارہ کی ہے،

4_ علامات کے لیے ضروری نہیں ہے کہ حتما پے درپے ایک ہی زمانے میں واقع ہوجائے،بلکہ علامت ایک زمانے میں واقع ہوجائے اور دوسری علامت دوسرے زمانے میں واقع ہوجائے،

لیکن شرائط اس طرح نہیں ھوگا،یہ ایک دوسرے کے ساتھ مرتبط ہوتا ہے،اور یہ ظہور کا موجب بنتا ہے اور اس طرح سے تدریجا وجود میں اتا ہے کہ استمرار بھی ختم نہ ہوجائے،

5_علامات ظھور کے اندر دوام اور گسترش نہیں پائی جاتی ہے جتنا طولانی ہوگا یہ اخر میں ختم ہوگا، لیکن شرائط بذات خود دوام اور گسترش کا سبب بنتا ہے،

6_ساری علامات،ظہور سے پہلے واقع ہوگئی اور ختم ہوگئی،لیکن شرائط،کامل طور پر وجود میں نہیں ائے گا،مگر یہ ظہور اور وقوع کا وقت نزدیک ہو،

7_ اللہ تعالی کے برنامہ ریزی میں (پروگرام) میں،شرائط ظہور، کا دخالت رکھتاہے،

لیکن علامات ظہور ایسا نہیں ہے،*امام زمان علیہ السلام کے علامات ظھور کے بارے جو روایات ہے اسکی تین تقسیم بندی ہوتی ہے*،

*پہلی تقسیم بندی*

اس علامات کی تین اقسام ہیں،

1:-وہ علامات جو واقع ہو چکی ہے،جیسے خلافت کا سلطنت میں تبدیل ہونا،بنی امیہ کا سقوط ہونا، بنی عباس کا سقوط ھونا،2- وہ علامات جو ابھی واقع ہو رہی ہے،

جیسے فساد،رشوت، غلط طریقہ سے ذندگی گزارنا، جنسی مخالف کا عام ہونا،بد اخلاقی،مرد اور عورت کا لباس ایک جیسا ہو گا،غیر پھلدار درخت کا ذیادہ ہونا، انکے بارے میں روایات موجود ہے،

3- وہ علامات جو جو ابھی تک واقع نہیں ہوچکی ہے،جس کے واقع ہونے کا منتظر ہے،جیسے، خروج سفیانی،قیام یمانی، خسف بیدا،نفس ذکیہ کا قتل،صبیحہ اسمانی،خروج دجال یہ شیعہ کتابوں میں علامت ظھور ہے لیکن اھل سنت کے نزدیک علامت قیامت ہے،

*دوسری تقسیم بندی* اس علامات کی دو قسمیں ہوہے،

1- *ایک قسم عام* اس کے اندر عمومیت پائی جاتی ہے جس کا کسی خاص فرد سے،خاص مکان سے اور خاص زمان سے کوئی تعلق نہیں ہے،جیسے وہ روایات جو آخری زمانے کے لوگوں کی حالات بتاتے ہیں،

جیسے شراب ذیادہ پینا، کوئی ایک فرد نہیں ملے گا جو رشوت نہ لیتا ہو اور نہ دیتا ہو،یا کوئی ایسا فرد نہیں ملے گا جس کی ذندگی رشوت کے بغیر چلتی ہو،

2-*خاص*یہ وہ ہے جو کسی خاص ایک فرد کے ساتھ، کسی خاص زمانے میں،کسی خاص جگہ میں،مثلا شام میں ایسا واقع ہونا،نجف میں ایسا واقعہ رونما ہونا، مسجد کوفہ میں ایسا ہونا،

*تیسری تقسیم بندی*

اسکی دو قسمیں ہوتی ہے

1 *حتمی،قطعی*یہ وہ علامات ہے جس کا ظھور امام سے پہلے واقع ہونا ضروری ہے اور یہ کسی اور چیز پر معلق، مشروط نہیں ہے جب تک یہ واقع نہیں ہوگا امام ظھور نہیں کرے گا،

یہ چھے ہیں،۱۔ *خروج سفیانی*۲- *قیام یمانی*۳- *خسف در بیدا*۴- *قتل نفس ذکیہ*۵- *صیحہ آسمانی*

پس اسے پہلے کوئی ظھور کا دعوی کرے تو وہ جھوٹھا ہوگا،

2- *غیر حتمی و قطعی*

یہ اس کا ظھور سے پہلے واقع ہونا مشروط ہے

اگر مقتضی موجود ہو اور موانع مفقود ہو تو واقع ہو گا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button