کالمز
عنوان: کورونا وائرس سے ہم نے کیا سیکھا؟
تحریر: صاحب مدد
عالمی دنیا میں کروانا وائرس کی تباہکاریاں جاری ہیں۔ اس جان لیوا جراثیم نے اب تک لاکھوں انسانوں کو نگلنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں کو شدید متاثر کیا ہے اور معشیت کا پہیہ مکمل جام ہے ۔ تقریباً چار ماہ گزرنے کے باوجود بھی چائینہ کے علاؤہ کسی ملک نے اس وبا پر مکمل قابو پانے کا دعویٰ نہیں کیا ہے نہ جانے مزید کتنے لوگ اس وبا سے لقمہ اجل بنے گے اور کب تک اس کی تباہکاریاں دنیا کو متاثر کریں گی؟ پاکستان سمیت کچھ ترقی پذیر ممالک کی حکمت عملی دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید حالات بگڑھ سکتے ہیں۔ اللّٰہ خیر کریں!
قارئین کرام آئیں ہم خود سے ہم کلام ہوتے ہیں کہ ہم نے اب تک کرونا وائرس سے کیا سبق حاصل کیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے تاریخ خود کو دھراتی ہے اگر ہم دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف وبائیں آئے ہیں اور دنیا میں تباہی مچی ہے۔ جب ویکسین بنی ہے ان وبائی امراض میں کمی ہوئی ہے۔ اب بھی عالمی دنیا اس ویکسین کی انتظار میں ہے کہ کب کوئی مسیحا سامنے آئیں اور عالمی دنیا کو اس جان لیوا جراثیم سے نجات دلا سکے۔
یہاں بات ہو رہی ہے کہ ہم نے کرونا کی پانچ ماہ کی تاریخ سے کیا سیکھا ہے ؟ کرونا وائرس نے ہمیں یہ واضع طور پر سیکھایا ہے کہ امریکی، چینی، فرانسسی، اطالوی، جاپانی، افریقی، بھارتی اور پاکستانی سب انسان ایک ہیں۔ بحثیت انسان سب انسانوں کے ضروریات، مفادات اور ترجیہات ایک ہیں، کرونا وائرس نے نہ افریقہ میں مقیم غریب کالے کو بخشا ہے نہ سپر پاور امریکہ میں مقیم گورے کو، نہ لادین چائنہ کو بخشا ہے نہ اسلام کا گڑھ سعودی عرب اس وبا سے محفوظ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے ہتھیار بنا بنا کر انسانیت کی قتل عام کی اور خود سپر پاور بن گیا، چائنہ دو نمبری سامان حتی کہ جعلی چاول اور انڑوں تک بنا بنا کر امریکہ کے مقابلے میں آ گیا۔ امیر ممالک نے غریب ممالک کو اپنا غلام بنا رکھا ہوا ہے۔ اقوام عالم نے اب تک انسانیت کی فلاح کے لیے کوئی اچھا کام نہیں کیا۔
کرونا کے بعد دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہوں گے۔ کرونا سے زیادہ نقصان ترقی یافتہ ممالک کو پہنچا ہے، خاص طور پر امریکہ، چائینہ، جرمنی، کنیڈا وغیرہ۔ عالمی دنیا سرے سے ہی اپنے پالیسوں پر نظر ثانی کرے گی ، تعلیم اور صحت کے بجائے اچھا خاصا بجٹ دفاع پر خرچ ہوتا تھا، کھربوں ڈالر کے ہتھیار بنتے تھے اب وہاں ادوایات اور صحتِ کے شعبے میں کام ہوگا۔ جہاں پیزا،برگر کھایا جاتا تھا وہاں قوت معدافعت مضبوط کرنے کے لیے دیسی اور معیاری خوراک کا استعمال کیا جائے گا۔ جو لوگ آدھی رات تک کام کر صبح سات بجے اٹھنا اپنی بہادری سمجھتے تھے وہ یقینا رات کو جلدی سو کر صبح جلدی اٹھنے کو غنیمت سمجھے گے، جو اپنی دلیسں کو برا بھلا کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاچکے تھے وہ واپس لوٹ کر اپنے دلیسں میں رہنا پسند کرے گے۔ جن کو اپنی امی، بیوی اور بہن کا بنایا ہوا کھانا اچھا نہیں لگتا تھا ریستوران سے کھانے کے عادی تھے وہ اب اپنے کچن میں خود کھانا بنا کر کھانے کے عادی ہوں گے۔
کرونا یقیناً اقوام عالم کو دفاع پر زیادہ بجٹ خرچ کرنے کے بجائے صحتِ اور تعلم جیسے انسان بنیادی ضروریات پر خرچ کرنے کا درس دے گا۔ کرونا یہ بھی سیکھائے گا کہ جتنا ٹینک، کارتوس اور کلاشنکوف کی ضرورت ہے اتنے ہی وینٹیلیٹر، ماسک، اور ادوایات کی بھی ضرورت ہے۔
جیسی عوام ویسے حکمران بدقسمتی سے موت ہمارے کاندھے پر سوار ہے ہم نے اب تک نہیں سیکھا ہے ہمیں کیسے اس جان لیوا جراثیم سے نجات حاصل کرنا ہے۔ کھبی لاک ڈاؤن میں اتنی سختی ہوتی ہے کہ پرندہ بھی پر نہیں ہلا سکتا ہے کبھی اتنی نرمی ہوتی ہے کہ لوگوں کو کرونا وائرس کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کرونا وائرس سے اموات کی شرح صفر ہے۔ ان مالک کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے نہ ان کے پاس کوئی خدائی طاقت ہے ان ممالک نے اس وبا کو سنجیدہ لے کر سخت سے سخت اقدامات اٹھائیں ہوں گے تب ہی ممکن ہوا ہے۔ تشویشناک بات تو یہ ہے اب مزید کرونا کے کیسز سامنے آئیں گے کیونکہ گزشتہ ہفتے پاکستان میں ٹیسٹنگ کیپسٹی بڑھائی گئی ہے۔ اگر آگے بھی اقدامات اس طرح سے کی گئی تو کروانا وائرس یہاں سے جانے کا نام تک نہیں لے گا۔ لوگ کرونا سے زیادہ بھوک اور بےروزگاری سے مر جائیں گے۔
قارئین کرام کرونا وائرس دنیا میں ایک پیغام لے کر آیا ہے کہ افاتیں، وبائیں اور تکالیف کسی کا لحاظ نہیں رکھتی ہے۔ اب اقوام عالم کو کرونا کو دونوں تناظر میں دیکھنا چاہیں یعنی کرونا سے پہلے کی دنیا اور کرونا سے بعد کی دنیا کو سامنے رکھ کر اپنی ضروریات، مفادات اور ترجیہات پر غور کر کے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے چیلنجوں کا آسانی سے مقابلہ کیا جاسکے۔