کالمز

موجودہ حالات اور ماہ صیام

تحریر۔۔ قاسم نیّر مہدی آبادی

عظیم رحمتوں اور برکتوں کے مہینے کو رواں سال غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مسجدوں اور امام بارگاہوں میں مذہبی رسومات اور اجتماعات پر پابندی لگنے سے مذہبی رسومات اور عبادات متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ آزمائشیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں اسی کی ذات سے مدد مانگنے کی ضرورت ہو گی ۔اللہ تعالی ہر سال اپنے بندوں کو توبہ استغفار کے لیے ماہ صیام کی صورت میں بہترین موقع عنایت کرتا ہے لیکن انسان اس چیز سے بالکل غافل ہے۔ ماہ رمضان کو تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔

حضورؐ فرماتے ہیں ” جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو باندھ دیا جاتا ہے-” اس مہینے کو نیکیوں کا موسم بہار بھی کہتے ہیں۔ یہ رحمتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے ۔ اللہ کی رحمتیں بے کنار ہیں۔ مگر اس کی رحمتوں کا مستحق بننے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ ایمانی قوت سے دل و دماغ کو منور کرنا ہو گا۔ اگر ہماری حالت نہیں بدلی تو پھر بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اللہ کی خواہش اپنے بندوں کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے۔اللہ تعالی بندوں کے دلوں میں ایمانی قوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور روح کو پاکیزہ کرنا چاہتا ہے۔ روزہ ایک پوشدہ اور خاموش عبادت ہے جس میں ریا اور نمائش کی کوئی گنجائش نہیں جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے کسی دوسرے کو پتہ نہیں چلتا۔ یہی چیز تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے۔ہمارے معاشرے کو ریاکاری ، حسد ، غیبت، چغل خوری، تکبر ، بد اخلاقی اور بد کرداری جیسے منفی رویوں نے کھوکھلا کر کے رکھا ہے۔ ہیمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی کرداروں کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس وقت ایک طرف کرونا دوسری طرف غربت و افلاس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ مہینہ ہمدردی اور غمخواری کا بھی ہے ہمیں حالات کے پیش نظر ان محتاجوں ، مسکینوں اور غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہوئےان کی ضرورتیں پوری کرنی ہونگی جو سفید پوشی اور خود داری کے باعث دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا نہیں سکتے۔ مگر ان کی نظریں صاحبان ثروت کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔ ماہ رمضان میں صدقات و خیرات کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضورؐ سے پوچھا گیا کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا ” ماہ رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے (ترمذی)_” حضور پاکؐ بھی باقی مہینوں کی نسبت ماہ رمضان میں زیادہ صدقہ و خیرت عطا فرماتے تھے۔ صدقہ و خیرات نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے ۔ آج کی ان حالات میں غریب طبقہ ذہنی پریشانیوں اور الجھنوں میں مبتلا ہے۔ ان کی پریشانیاں دور کرنے کا بہتریں طریقہ صدقہ و خیرات دینا ہے۔ صدقہ صرف مال سے نہیں ہوتا بلکہ صدقہ فقیروں اور مسکینوں کے حق میں سفارش کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ غریبوں ، یتیموں ، اور ضرورت مندوں کے مدد، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے۔ رسول اکرمؐ نے حاجت مندوں کی حاجت روائی کا نہ صرف حکم فرماتے تھے بلکہ عملی طور پر آپؐ خود بھی ہمیشہ غریبوں ، یتیموں اور محتاجوں کی مدد میں پیش پیش رہتے۔ انسان کیلے عزت و شرف اسی میں ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ تعالی کے احکامات کے تابع کر دے اور صرف اور صرف اسی کی بندگی کرے۔ یہی عمل لوگوں کے درمیان درجہ بندی کا معیار ہے۔

خطہء بلتستان میں ماہ صیام میں موجودہ حالات کے پیش نظر مختلف فلاحی ادارے ،خیراتی تنظمیں اور صاحب استطاعت لوگ اپنی اپنی بساط کے تحت اجتماعی اور انفرادی طور پر ضرورت مندووں کے لیے امدادی سامان فراہم کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ عمل داد اور تحسین کے قابل ہے۔ مگر تمام مخیر حضرات یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ان صدقات اور خیرات کی تقسیم کار کے لیے ہر محلے اور علاقے سے ایسے با اعتماد افراد کا چناو کریں جو احسن طریقے سے اصل حقداروں تک یہ راشن پہنچایا جا سکیے۔ وگرنہ غریب اور محتاج لوگ محتاج ہی رہینگے اور ہماری پرانی رسم کے تحت یہ سب کچھ اثر ورسوخ والوں کی عیاشی کا ذریعہ بن جائے گاـ

اگر چہ زمضان کردار سازی کا مہینہ ہے مگر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ لوگ ایک طرف فیوض و برکات سمیٹنے میں لگے ہوے ہیں تو دوسری جانب ناجائز منافع خور اور گراں فروش کاروباری طبقہ روزہ داروں کو لوٹنے میں مگن رہتا ہے۔ یہ رمضان شروع ہوتے ہی عوام کو لوٹنے اور منافع خوری میں سرگرم ہوتا ہے۔رمضان میں شیطان کو تو باندھا جاتا ہے مگر شیطان کا کام کرنے والے ان ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں کو کون باندھے گا؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گراں فروشوں کے خلاف کاروائی کرے تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ بد قسمتی سے آج ہم نت نئے مصیبتوں اور عذابوں کا شکار ہو رہے ہیں۔اس کے باوجود ہم اپنا قبلہ درست کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہر طرف نفسا نفسی کا دور ہے۔ کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال۔ جھوٹ ، ریاکاری ، حسد ، لوٹ مار ، ظلم و بربریت ، ناجائز منافع خوری غرض تمام برائیوں میں اس طرح غرق نظر آتے ہیں جیسا کہ یہ بڑے نیک کام ہوں۔ برکتوں والے مہینے میں ایک طرف کرونا جیسی وبا اور لاک ڈاون دوسری طرف مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کو ذہنی پریشانوں اور الجھنوں میں مبتلا کر رکھا ہوا ہے۔ جب بھی اللہ کا مہینہ قریب ہوتا ہے ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ جاتی ہے ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

روزہ داروں سے کسی تاجرِ اشیاء نے کہا لطف رمضان کی برکت میں ملے گا تم کو دوگنی قیمت پہ خریدو گے اگر افطاری سو گنا اجر قیامت میں ملے گا تم کو شنید ہے کہ یورپی ممالک میں خاص تہواروں پر اشیاء ضرورت کم نرخ پر فراہم کی جاتی ہیں اور کم منافع حاصل کر کے عوام کو زیادہ سے زیادہ اشیاء فراہم کرتے ہوئے عوامی خدمت کرتے ہیں تاکہ امیر و غریب سب برابر خوشی محسوس کرے۔ مگر بد قسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں اس کی الٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے۔مہنگائی کا تحفہ بھی سج دھج کے ساتھ آتا ہے۔ بنیادی اشیاء خوردو نوش بالخصوص پھلوں ، سبزیوں اور گوشت کی قیمتں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جس سے غریب طبقے کو افطاری کے سامان خریدنا مشکل ہو تا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ غریب روزہ دار اس ماہ مبارک میں افطاری اور سحری کے لوازمات خرید سکیں۔۔

تحریر۔۔ قاسم نیّر مہدی آبادی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button