میرٹ کے قاتلوں کیلئے واہ واہ نہیں، تھو تھو!
تحریر : ایڈوکیٹ حیدر سلطان
کسی ملک کا سربراہ دشمن ملک کی سازش سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا ۔ یہ بات تمام ایجنسیز کے علم میں تھی ۔ سب موقع کی طاق میں تھے کہ ٹھوس ثبوت ہاتھ لگیں تاکہ عوام کے سامنے رکھے جاسکیں ۔ کوئی ثبوت نہ ملا یہاں تک کہ ان کا دور حکومت اختتام تک پہنچ گیا۔ گارڈ آف آنر دینے کے بعد جناب سے پوچھا گیا ۔ ایک بات طے ہے کہ الیکشن جیتنے سے حکومت بنانے تک آپکو دشمن ملک کا سپورٹ حاصل تھا اور یہ سپورٹ آپ کو دشمن ملک کے احداف حاصل کرنے کیلئے ملا تھا۔ ہم نے آپ پہ کڑی نظر رکھی مگر ہمیں آپ کے خلاف ایک بھی ثبوت نہ ملا کہ آپ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ۔ صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے کہ میں نے جس ناسور کے بیچ کو اس ملک میں بویا ہے اس کا اندازہ آپ کو آنے والے وقت میں ہوجائے گا ۔ وضاحت طلب کی گئی ۔ فرمانے لگے میں نے اپنے دور حکومت میں نا اہل اور نکمے لوگوں کو اعلی عہدوں پہ فائز کیا ۔ قابل لوگوں کی حق تلفی کرکے میرٹ سے ہٹ کر نوازشیں کیں۔ اب ان اعلی عہدوں پہ فائز نکمے لوگ آپ کے ملک کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہونگے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کا 46واں سیشن میں چھ ہزار سے زائد کنٹریکٹ ، کنٹیجنٹ اور پروجیکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کیلئے پرائویٹ بل کثرت رائے سے منظور ہوا۔ بل کو پاس کرنے میں اپوزیشن لیڈر اور حکومت کا گٹھ جوڑ واضح ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پرائیویٹ بل اپوزیشن لیڈر کا تھا اور ایوان میں پیش وزیر قانون اورنگزیب خان ایڈووکیٹ نے کیا ۔ جس کو پارلیمانی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا. حکومت نے اس متنازعہ بل کوپورا پورا سپورٹ کیا جسکے بعد بل کو کثرت رائے سےپاس کیا گیا اور قانونی شکل دینے کیلئے گورنر صاحب کے پاس دستخط کیلئے بھیجا جائے گا۔ اور یقینا گورنر صاحب اس کار خیر میں اپنا حصہ بلکل اسی طرح ڈالیں گے جسطرح بدنام زمانہ رشتہ داری بل میں ڈالا تھا ۔ بظاہر یہ ایک اعلی ترین اقدام ہے ۔ روزگار دیا جارہا ہے ۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کی واہ واہ ہورہی۔ کوئی بھی اس پروسز کو گہرائی سے دیکھنے کی زحمت نہیں کر رہا۔ پڑھا لکھا نوجوان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ایک اجنبی تماشائی کی مانند میرٹ کے اس جنازے کو اسمبلی سے گورنر آفس میں آخری دیدار کیلئے جاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ ایک جانب وہ طبقہ ہے جن کے پیچھے ان پڑھ یا پھر نیم پڑھے لکھے سیاستدان موجود ہیں ۔ یہ طبقہ مختلف ڈپارٹمنٹس میں کک بیکس کے زریعے بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے اپوائنٹ ہوا ہے ۔چاہے ککھ نہ آتا ہو اسمبلی کے اس مک مکا کے بعد مستقل ہوگا ۔ دوسری جانب مختلف ملکی و بین الا اقوامی یونیورسٹیز سے فارخ اتحصیل وہ نوجوان ہیں جن کے پاس صرف قابلیت ہے ۔ انہوں نے ریگولر کورس ورک کے علاوہ یہ بھی پڑھا ہے کہ "محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ” مگر یہ طبقہ جب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھتا ہے تو انہیں بہت تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ طبقہ اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ کمپٹیشن میں شامل ہوکر اپنے معیار کی نوکری حاصل کرے گا مگر پہلا طبقہ ہر بار ان کی قابلیت کو مات دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ پہلے صوبے کا سی ایم اپنے بھائی کی کچی نوکری پکی کرنے کیلئے اسمبلی سے بل پاس کرواتا ہے ۔ پھر اسمبلی ممبران اپنے بھانجے بھتیجوں کی نوکریاں ریگوکر کرانے کیلئے رشتہ داری بل لیکر آتے ہیں ۔ اور اب جاتے جاتے وہ سارے گند جو اس حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک مچائے گئے ہیں کو قانونی شکل دے کر پاک کرنے کیلئے ایک اور بل پاس کروایا گیا ہے۔
اس بل کے پاس ہونے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں کنٹرکٹ ملازمین ریگولر ہوجائیں گے ۔ گریڈ 16 سے 18 کے وہ ملازمین بھی ریگولر ہوجائیں گے جنہیں کسی خاص مقصد کیلئے نوکری دی گئی ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد سرکاری نوکری کی طاق میں بیٹھے نوجوانوں کو کئی سال لگ جائیں گے مگر قابلیت کے بلبوتے پہ نوکری حاصل کرنے کے خاطر خواہ مواقع حاصل نہیں ہوسکیں گے ۔ ہمارے ممبران اسمبلی کو لگتا ہے کہ میرٹ کی پامالی کرکے نوکریاں دینا ایک بڑا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے عوام میں ان کی خوب واہ واہ ہوگی ۔ انہیں وقتی واہ واہ تو سنائی دیتی ہے مگر عنقریب جو تھو تھو اور ماتم ان کی عقلوں پہ تا ابد ہونے جارہی ہے اس کا اندازہ شاید انہیں فی الوقت زرا سا بھی نہیں۔ ان کے ایسے کارنامے دیکھ کر بعض اوقات ایسا لگتا ہے جیسے یہ بھی کسی دشمن ملک کے مشن کو کو پایہ تکمیل تک پہنچارہے ہیں ۔ زرا سوچیں!! بغیر محنت کے گریڈ 18 میں اپائنٹ ہونے والا بندہ اپنے اوپر کئے گئے احسانات کا بدلہ تاعمر کیسے چکائے گا ۔ اس کی وفاداری ریاست سے زیادہ سیاست کے ساتھ جڑی رہے گی ۔ میرٹ کو پامال کرکے اعلی عہدوں پہ فائز ہونے والےبندے سے میرٹ اور انصاف کی امید رکھنا ہجڑے سے اولاد کی امید رکھنے کے برابر ہوگا ۔ بڑے فخر سے کہتے ہیں ہم روزگار دیتے ہیں ۔ ارے بھائی!!! زرا بتلا دو تو ۔ کیسے اور کہاں سے دیتے ہو یہ روزگار۔ تمھارے باپ دادا کی کوئی فیکٹری لگی ہے جو یوں بندر بانٹ کر رہے ہو ۔ اپنے گھر میں تو مالی یا چوکیدار لگاتے وقت بھی سو بار سوچتے ہو کہ بندہ ایماندار اور موزوں ہونا چاہئے ورنہ ہزار طرح کے مسائل سے واسطہ پڑ سکتا ہے مگر بات جب پبلک آفس ہولڈرز کی ہو تو گریڈ 18 تک بھی کوئی معیار نہیں۔ تو صاحب کس نے سکھایا ہے یہ سب آپ کو۔ کہتے ہیں اللہ کسی گدھے کو سینگ نہ دے ورنہ وہ اپنی خسلت سے مجبور ہوکر مخلوق خدا کا جینا حرام کر دے گا ۔ جی بی اسمبلی کے ممبران کی مثال بھی ان گدھوں سے زیادہ مختلف نہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ گدھے کو سینگ اور ممبران اسمبلی کو میرٹ کی پامالی کے علاوہ کوئی اختیارات نہیں ملے ہیں ۔ ان ساری زیادتیوں میں بیوروکریسی خصوصاً اسمبلی میں موجود آفیسران کی خاموشی بھی انتہائی مجرمانہ ہے. اگر کوئی خلاف ضابطہ کام بیوروکریسی بھی ممبران سے کرانا چاہے تو اسمبلی میں موجود پارلیمانی آفیسران کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اسکو روک لے پارلیمان کے تقدس پر آنچ نہ آنے دیں. صدافسوس گلگت بلتستان میں یہ لوگ بھی غلط لوگوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اسمبلی جسکو اداروں کی ماں کہا جاتا ہے کو ٹھک سیاستدانوں کی لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔ پانی سر سے گزرہا ہے ۔ نوجوان نسل مایوسی کے دھانے کھڑی ہے ۔ ایسا نہ ہو ان اسمبلی ممبران کی غلطیوں کی سزا ریاست کو ادا کرنا پڑے ۔ اب بھی وقت ہے ایسے ایکٹس کو ڈسٹ بین میں ڈال کر میرٹ کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ سیاسی و لسانی کارڈ ہمیشہ کے لیے ختم ہو اور لوگوں کا قابلیت اور محنت پہ اعتماد بحال ہو. بصورت دیگرریاست کو اس میرٹ کے قتل عام کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور یہ بھی ممکن ہےکہ یہ قیمت اتنی بھاری ہو گی کہ ریاست چکانے سے ہی رہ جائے . ویسے بھی گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ اللہ ریاست کا حامی و ناصر ہو.