انسداد کورونا میں نرسزکا کردار: "دہ لیڈی وید دہ لیمپ”
صفدرعلی صفدر
فلورنس اٹلی کا ایک گنجان آبادشہر ہے جو اپنے قدرتی حسن، قدیم طرز تہذیب اورمنفرد ثقافتی ورثے کی بدولت عالمی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس شہر میں 12 مئی1820ء کو ایک ننھی بچی نے جنم دیا جس کا نام ’فلورنس نائٹینگل‘ یعنی فلورنس کی بلبل کی رکھ دیا گیا۔ فلورنس اپنی کمال ذہانت اور تخلیقی صلاحتیوں کی بدولت بچپن سے ہی غیرمعمولی شخصیت کی حامل تھیں۔انہی صلاحیتوں اور عزم واستقامت کے ساتھ کام پر یقین نے بالآخر انہیں زندگی کی ان بلندیوں تک پہنچادیا جسے تاریخ کے ایک سنہرے باب کے طورپر یاد کیا جاتا ہے۔
فلورنس نے اپنی تعلیمی سفرکی ابتداء میں شعبہ ریاضی میں دلچسپی لی۔ مگر بدلتے ہوئے حالات نے انہیں خدمت ِ انسانیت کی جانب راغب کیا۔چنانچہ انہوں نے کمیونٹی کی سطح پر انسانی فلاح وبہبودکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا، جس میں بیماروں کی تیماردار، محتاجوں کی حاجت، غریبوں کی مدد وغیرہ کی سرگرمیاں شامل تھیں۔سولہ سال کی عمرکو پہنچنے تک دماغ میں خدمتِ انسانیت کا جذبہ نقش ہوچکا تھا۔اس مشن میں ایک پیشہ ورانسان خود کو منوانے کے لئے ان کے پاس نرسنگ کا شعبہبہترین انتخاب تھا۔ ایک دن انہوں نے والدین کے سامنے نرسنگ کا شعبہ اپنانے کی خواہش کا اظہار کیاتوانہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ نرسنگ اپرسوشل کلاس کی نظرمیں ایک معمولی سی مزدوری سمجھی جاتی ہے۔
والدین کی سخت ممانیت کے باوجودنائٹینگل اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹی اور1844میں جرمنی کے شہرکیسرورتھ کے اسپتال میں ایک رجسٹرڈ نرس کے طورپر داخلہ لیا۔ نائٹینگل نے جرمنی سے نرسنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1850ء کو لندن میں اسی شعبے میں ملازمت اختیار کرلی۔جہا ں پروہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحتیوں کا لوہا منواکر صرف ایک سال کے عرصے میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئیں۔انہوں نے یہ عہدہ ایک ایسے وقت میں بطورچیلنج قبول کیاجب ہرطرف آج کے کورونا وائرس کی طرح ہیضہ کی وباء پھیل چکی تھی۔ نائٹینگل نے صورتحال کی پرواہ کئے بغیراعلیٰ ہمت اور حوصلے سے اس وباء کے خلاف جنگ کی ٹھان لی۔ اس وباء سے متاثرہ مریضوں کی خدمت کے دوران وہ خود بھی اس موزی مرض کا شکار ہوکر موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ گئیں۔ مگرحفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت اس وبائی مرض پر قابو پر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
نائٹینگل کو ابھی ایک چیلنج میں کامیابی ملی ہی تھی کہ یکے بعد دیگرے1853ء میں سلطنت عثمانیہ کی تخت کے لئے تاج برطانیہ اور روسی سلطنت کے مابین کریمین جنگ چھیڑ گئی۔ اس جنگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچادی تھی اور بیک وقت ہزاروں زخمی اسپتالوں میں زیرعلاج تھے۔ ان کے زخمیوں کے زخموں پر مرہم پٹی باندھنے کے لئے ایک پیشہ ور افرادی قوت (نرسز)کی اشدضرورت تھی۔ مگر کریمیانامی علاقے میں کوئی ایک خاتون نرس تک دستیاب نہ تھی جو ان زخمیوں کے علاج ومعالجے میں مددکرسکے۔ اسی اثناء نائٹینگل کوحکام کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں کریمین جنگ سے متاثرہ زخمیوں اوربیماروں کی دیکھ بال کے لئے پیشہ ور نرسوں کی مددکے لئے استدعا کی گئی تھی۔
نائٹینگل نے اس درخواست پر لب بیک کیا اورچونتیس رکنی قافلے کے ہمراہ فوراً کریمیا روانہ ہوئیں۔نائٹینگل اور اس کی ٹیم نے مشکل وقت میں انسانیت کی مدد کے سلسلے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے بیماروں اور زخمیوں کی دیکھ بال میں دن رات ایک کیا اور اپنے غیرمعمولی کام کی بدولت کریمیا کے اسپتالوں میں پڑے بے یارومددگار زخمیوں کے لئے امید کی کرن بن کر ابھریں۔انہوں نے زخمیوں کی مناسب دیکھ بال کے ساتھ ساتھ اسپتال کے اندرصفائی کو یقینی بنایاجس سے انفیکشن کے سبب ہونے والی اموات میں خاطرخواہ کمی ہوئیں۔نائیٹگل کی بے پناہ ہمدردی اور شفقت سے محوہوکر کسی نے انہیں ’دہ لیڈی ویت دہ لیمپ‘ کا لقب دیا تو کوئی اسے ’کریمیا کی فرشتہ‘ پکارتے رہے۔
نائٹینگل اپنے ان غیرمعمولی خدمات کی وجہ سے خوب شہرت اور عزت کما چکی تھیں لیکن انہیں اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ دیڑھ برس بعد جب1856ء کو کریمیا سے اپنا ابائی وطن فلورنس (جہاں اس نے جنم دیا تھا) لوٹیں تو لوگ ایک قومی ہیرو کی مانند ان کے استقبال کے لئے جمع ہوگئے جو ان کے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ٹائٹینگل کی دکھی انسانیت کے لئے ان بے پناہ خدمات پرملکہِ روم نے انہیں ’نائٹینگل جیول‘کا لقب دیا جبکہ سلطنت برطانیہ کی جانب سے انہیں اس وقت کے حساب سے اڑھائی لاکھ ڈالر نقد انعام سے نوازا گیا۔
نائٹینگل نے وہ رقم نہ کسی کوٹھی بنگلہ کی خریداری پرخرچ کی نہ کوئی دنیاوی عیش عشرتمیں ُاڑائی۔ انہوں نے اس رقم سے1860ء میں ’ایس ٹی تھامس‘ اسپتال کی بنیاد رکھی جس کے اندر انہوں نے ’نائٹینگل سکول فارنرسز‘ کے نام سے شعبہ نرسنگ کے خواہشمندوں کے لئے ایک بہترین تربیت گاہ بنا لیا۔اب نائٹینگل ایک حقیقی بلبل کی طرح لوگوں کے دلو ں میں بس گئی اورلوگوں نے ان پر شاعری، غزلیں،نثر، پلے وغیرہ لکھنا شروع کردیا۔
نائٹینگل کی ان بے پناہ خدمات پر اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت اور انٹرنیشنل کونسل آف نرسز نے مشترکہ طورپر ہر سال 12مئی کو ان کی یوم پیدائش کو ’نرسوں کے عالمی دن‘ کے طورپر منانے کا فیصلہ کیا۔یوں دنیا بھرمیں ہرسال اس دن کو جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔رواں سال نرسوں کے عالمی دن کوغیرمعمولی اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں جہاں لاکھوں لوگ کورونا وائرس کا شکار ہوکر موت کی نیند سورہے ہیں اور کروڑوں کے حساب سے لوگ متاثرہورہے ہیں، ہرطرف ایک افراتفری کا عالم ہے تو ایسے میں یہی نرسز ہیں جو اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر ان کورونا مریضوں کی دیکھ بال میں مصروف عمل ہیں۔
اس حقیقت سے انکاری ممکن نہیں کہ کورونا وائرس کی اس عالمی وباء کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے جہاں ڈاکٹروں کا کردار ہے وہی نرسوں کی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔خاص طورپرکورونا کے خلاف اس جنگ میں نرسوں کا کردار ان مورچہ زن سپاہیوں کاکردار رہا جودشمن کی صفوں کو پھاڑنے میں اپنی تن من دھن کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے سات اپریل کو رواں سال کے عالمی یومِ صحت کونرسوں اور میڈوائفس کے نام کردیا تھا۔جبکہ انٹرنیشنل کونسل آف نرسنزاور ریڈکراس ریڈکریسنٹ کی عالمی تنظیم کی جانب سے رواں برس نرسز کے عالمی دن کو ’اے وائس ٹو لیڈ‘ (رہبری کی ایک آواز)کے تھیم تحت مناکر دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن میں برسرپیکار نرسز اوردوسرے ہیلتھ کئیرورکرزکوخراج تحسین پیش کرتی ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں ہرمعاشرے میں نرسنگ کے شعبے کو معیوب سمجھاجاتا رہا مگر وقت کے ساتھ ساتھ نرسز نے اپنی خدمات کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ جس قدر رزق حلال عین عبادت ہے اسی طرح خدمتِ انسانیت بھی کسی عبادت سے کم نہیں۔پاکستان میں ویسے بھی نرس اور مریض کا تناسب غالباً 1.50 جبکہ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقوں میں تو اس تناسب سے سینکڑوں مریضوں کے لئے بھی ایک نرس میسرنہیں۔ پھر بھی یہ اسپتالوں میں تعینات نرسنگ سٹاف کی جانب سے کسی کوکوئی شکایت نہیں رہتی۔ایسی صورتحال میں پاکستانی قوم ان نرسز کی ویسے ہی احسان مند ہے۔ اب کورونا کے دنوں میں تو یہ ہم سب پر واجب ہوگیا کہ ہم اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کردوسروں کی جان بچانے میں معاونت کرنے والے ان نرسوں کو خراج تحسین پیش کریں۔ دنیا بھر کے نرسز اور فرنٹ لائن ورکرز کو لاکھوں سلام!