کالمز

تخیّل کی پرواز اور گمشدہ جنت

تحریر: کریم مدد

سلسلۂ شام و سحر میں اب ایک ایسے وقت کا سامنا ہے کہ عجیب تھکا دینے والی فراغت گلے پڑی ہے, اعصاب کو مضمحل کر دینے والا آرام حرز جان بنا ہوا ہے. بدن حالتِ سکون میں ہے لیکن منتشر خیالات و احساسات کچھ ہوں الجھ رہے ہیں کہ ذہن و دل کے ساتھ ساتھ جسم کو بھی شل کر دیں. کاروبار حیات موقوف ہے, بازار کی مصنوعی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں, گلیاں سنسان ہیں, تعلیم کا غیر فطری نظام مفلوج ہے, انسانوں کو مشینوں کی طرح استعمال کرنے والے دفاتر بند پڑے ہیں. ایک خوف ہے جو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے, ایک مایوسی ہے جو نام نہاد ترقی کا منہ چڑا رہی ہے. اب لے دے کے کتب بینی ہی ایک ایسا مشغلہ رہتا ہے جو اس سراسیمگی کی کیفیت کو چند لمحوں کے لیے محو کر دے لیکن یہاں بھی عجیب الجھن کا سامنا ہے. نگاہیں سیاہ سطروں پر سے گزرتی تو ہیں لیکن ذہن میں یہ الفاظ نقش نہیں ہو پا رہے.  صفحات آنکھوں کے لیے الفاظ کی سوغات پیش کر رہے ہیں لیکن ذہن اس سوغات کو قبولنے سے انکاری ہے.  ایک ہی پیرا کئی دفعہ پڑھنے کے بعد تنگ آکر کتاب بند کر دی جاتی ہے, آنکھیں موند لی جاتی ہیں, غنودگی سی چھا جاتی ہے اور اس عالمِ آب و گِل سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور

 تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں

کبھی گمان کی صورت کبھی یقیں کی طرح

اب طائرِ خیال ہے اور تخیل کا لا محدود میدان. گردشِ ایام اُلٹی سمت میں رواں دواں ہے . ماضی کی طرف جوں جوں سفر بڑھتا جا رہا ہے, معمولات زندگی میں سادگی نمایاں ہوتی جارہی, پیچیدگی کم ہوتی جارہی, مصنوعی رنگا رنگی کی جگہ فطرت کی سیاہی و سپیدی اپنی شان دکھلاتی جارہی , انسانی کاریگری کی جگہ فطرت کی کارفرمائی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے. عارضی آرام و سکون کی جگہ زندگی کا کُھردراپن واضح ہوتا جا رہا, شور کی جگہ نغمگی کا احساس قوی ہوتا جا رہا. منافقت کی شدت میں کمی آرہی, رویوں میں ایک طرح کا خالص پن  نظر آرہا. بلند عمارتوں کی جگہ چھاؤں دیتے درختوں کی فراوانی ہے, مکانوں کی جگہ سبزہ ہے, مارکیٹوں کی جگہ فصلیں نظر آرہی…. اس کے باوجود یہ حقیقت نگاہوں پہ عیاں ہے کہ سسکیاں, آنسو, خون, ناکامیاں, غربت, بیماریاں, مصائب, آلام, نفرتیں, منافقتیں, تعصبات, تفرقات, مفادات, غرور, غلامی, استحصال وغیرہ ہر دور میں انسان کی زندگی کا حصہ رہے ہیں تو دوسری طرف خوشی, آزادی, کامیابی, امارت, محبت, صحت, آرام وسکون اور مسکراہٹوں کی تلاش بھی جاری رہی ہے.

زندگی کے ان نشیب وفراز کا نظارہ کرتے ہوئے تخیل کا یہ سفر پُراسرار قسم کے کھنڈرات تک پہنچ کے رک جاتا ہے. طائرِ خیال اس ماحول کی پراسراریت سے مانوس ہونے کی کوشش کرتا ہے. چشمِ تصور سے ان کھنڈرات کا نظارہ کرنے پہ ان سے ریا کاری, خود غرضی اور مایوسی ٹپکتی ہے. گوشِ تخیل وا ہو جاتے ہیں تو سر گوشیوں کے ایک طوفان سے واسطہ پڑتا ہے…

"تہذیب اور فطرت کی سرحد پہ خوش آمدید…

یہی وہ جگہ ہے جہاں سے انسان نے فطرت سے جدائی کا سفر شروع کیا تھا

یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسان نے تمدن و تہذیب کی طرف قدم بڑھائے تھے

یہی وہ مقام ہے جہاں سے اجتماعیت کی بنیاد پڑی تھی

 یہی وہ جگہ ہے جہاں اپنے مفادات کو استحکام دینے کے لیے خاندان کی بنیاد ڈالی گئی تھی

 یہی کہیں پہلی بار حاکم اور محکوم  طبقے کے خد و خال سامنے آئے تھے

 یہی کہیں آس پاس, ریاست اور قوانین بنانے کی ابتدائی کوششیں ہوئی تھیں تاکہ اپنے مفادات اور اپنی ملکیت کو تحفظ دیا جا سکے

 یہی پہ کہیں وہ جگہ بھی ہے جہاں اپنے مفادات کو بچانے کے لیے کسی تعلیمی نظام کا سوچا گیا

 مذہب کی ایجاد بھی یہی کہیں پہ ہوئی تاکہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا جا سکے .

لوگوں کی آزادی سلب کرنے کے لیے اخلاقیات کے کھوکھلے نظریے یہی پہ گھڑے گئے.

 ایک بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے  کسی قبر کے آثار نظر آئے. تجسس بھری نظروں سے اس قبر کا جائزہ لینے پہ بوڑھے برگد نے سر گوشی کی, "یہاں انسان کی حقیقی خوشی اور آزادی دفن ہیں. فطرت کے ساتھ برسرِ پیکار انسان نے سب سے پہلے جس چیز کی قربانی دی وہ یہی دو چیزیں ہیں…”

انسانوں کی اپنے ہاتھوں بنے اس قبرستان میں پر مارتے,  آوازیں سنتے اور کھنڈرات دیکھتے ہوئے حد درجہ گھٹن سی ہونے لگی ہے تو تخیل کا ایک اور جھونکا آیا اور طائرِ خیال کو اٹھا کے ایک نئی کائنات میں پھینک گیا.. یہاں پہنچتے ہی سارا سفر اور اس سفر کی تھکن ہَوا ہو گئی, وہ سارے مناظر محو ہو گئے جن کا مشاہدہ تخیل کے سفر کے دوران کیا گیا تھا, یہاں تک کہ ابھی چند لمحے پہلے جن کھنڈروں میں بے دست و پا محض سرگوشیوں کی الجھاہٹ تھی, وہ بھی پردۂ خیال سے مٹ چکی تھی. اب جو کائنات پیشِ نگاہ تھی, یہاں انسان فطرت کے ماتھے پر بد نما داغ نہیں تھا بلکہ فطرت کا ہی جز اور حصہ تھا, فطرت کا حریف نہیں تھا بلکہ اس کی گود میں گلکاریوں میں مصروف تھا. یہاں زمانے کی تقسیم وجود نہیں رکھتی تھی, ماضی کا بوجھ انسان کے کندھوں پہ تھا نہ ہی مستقبل کے خدشات تھے. بس زمانۂ حال تھا اور لمحۂ موجود کو ہی زندگی کہا جاتا تھا. تہذیب, تاریخ, فلسفہ, مذہب, تعلیم, فن, ریاست, قوانین, خاندان, رشتے, دولت, طبقے.. کچھ بھی نہیں تھا, محض زندگی تھی, فطرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگ زندگی, فطرت کے ازلی و ابدی قوانین تھے. جو فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے وہی زندہ رہنے کا حقدار اور جو فطرت کا ساتھ نہ نبھا سکے اس کا مر جانا طے تھا….. یہاں انفرادیت تھی, آزادی تھی, خوشی تھی.. فطرتی, سفاک اور وحشی مسرت… جو بھی خود کو اس کا اہل بناتا وہ مسرور رہتا اور جو اس قابل نہ ہوتا وہ مر جاتا… کسی کو کسی کے سکون و خوشی سے حسد تھا نہ کسی کو کسی کی موت کا غم….

میرے تخیل کا پرندہ ایسی سفاک خوشی اور وحشی آزادی کی تاب نہ لا سکا اور فطرت کی گود سے اڑ کر تہذیب کے قدموں میں گر پڑا.

اب ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے دنیا ہے, تہذیب ہے, ترقی ہے, مفادات ہیں, خود غرضی ہے, منافقت ہے, تعصب ہے, وہی ماضی کے بارِگراں سے جھکی کمر ہے. حال کی غیر یقینی کیفیت کے ہتھوڑے ہیں, مستقبل کے اندیشوں کی دیمک ہے اور میں ہوں… اگر نہیں ہے تو حقیقی خوشی و آزادی…

سود و زیاں کے گرد گھومتی زندگی کی اِس غیر فطری تگ و دو سے جب کبھی چند لمحے خالص زندگی کے میسر آتے ہیں تو ایک ہی سوال دل و دماغ میں گونجتا ہے

کہ "انسان نے جنون گنوا کے خِرَد آزما کے کیا پایا؟؟”

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button