کالمز
تنگدستی اور افلاس کرونہ وائرس سے خطرناک
پاکستان مییں کورونا کی مہلک وبا پھیلی ہے۔ وزیر اعظم نے سب سے پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ملک میں بھوک اور غربت سے اموات کرونا وبا سے زیادہ ہونگے ۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو واقعی پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ آبادی ایسی ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں اور وہ زیادہ تر دیہاڈی دار ہیں ۔ان غریبوں کی مددکے لیئے سابقہ ادوار میں مالی معاونت کے لیے بے نظیر انکم سپوٹ پروگرام چل رہا تھا اور موجودہ حکومت نے اسی پروگرام کو احساس پروگرام کا نام دیا ۔ اگر مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی اس نئی حکومت میں جتنی بڑھی اتنی مہنگائی پچھلے ادوار میں نہیں دیکھی گئی ۔
اس مہنگائی نے جہاں متوسط طبقے کو پریشان کر رکھا ہے وہیں ایسے غرب طبقے کی پریشانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ۔لاک ڈاون ہو یا نہ ہو غریب طبقہ پہلے ہی سے متاثر ہے۔غربت اور بے روزگاری کا مسلہ روز بروز گھمبیر ہوتا جا رہا ہے ۔موجودہ حکومت کے اقتدار میں انے سے پہلے بھی یہی منشور تھا اور عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ روزگار کے مواقعے فراہم کرینگیں ۔نوجوان نسل نے اس حکومت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھی کہ ان کے امیدوں کا مداوا ہو اور روزگار کے مواقعے ملیں تاکہ وہ باعزت زندگی گزار سکیں ۔لیکن وہ وعدہ وفا نہیں ہوا ۔مختلف اداروں میں پہلے سے رواں روزگار کے موقعوں کو بھی فنڈز کی ترسیل نہ ہونے سے کئی لوگ بے روزگار ہو گئے۔
بات احساس پروگرام کی اگر کریں اس پروگرام میں صرف موجودہ وقت میں ان لوگوں کی ضرور مدد ہوگی لیکن بات ایک مہینے یا دو مہینے کی نہیں بات طویل المدت پلان کی ہے۔آنے والے وقت میں کس طرح لوگوں کو غربت جیسے سنگیں مسلے سے نکالا جا ئے ۔اس کے لئے غربت مٹاو پروگرام لانا ہوگا تاکہ وہ انتہائی غریب لوگ اپنے پاوں پر کھڑا ہوں اور اپنے نسلوں کو اس سے بچائے ۔امداد کے رقم کے استعمال کے حوالےسے ان کی رہنمائی کرنی پڑے گی ۔اس لحاظ سے چھوٹے کاروباری حضرات کو قرضے مل رہے ہیں اچھی بات ہے لیکن ان کو گائیڈ نہیں کرینگے تو پھر مشکل ہوگا کہ اس کے ثمرات حاصل ہوں ۔رہی بات کرونہ کی تو پھر ہمیں اسکے ساتھ رہنا ہوگا کا جو فارمولہ پیش کیا جا رہا ہے یہ بہت مشکل کام ہے کہ دشمن کے ساتھ رہنا ہوگا چاہے جتنا بھی نقصان ہو لیکن اس کے لئے معاشرے میں شعور اور آگاہی انتہائی لازمی ہے ۔ورنہ کرونہ رہے گا شاید ہم نہ رہے۔
غریب طبقہ پہلے سے ہی غذائی قلت جیسے حالات کا مقابلہ کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے غیر معیاری اشیاء کا استعمال معمول کا حصہ ہیں ۔اسی وجہ سے آئے روز مختلف امراض میں اضافہ تشویش ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔
اسکے ساتھ اگر کرونہ جیسے وبا کا بھی اگر حملہ ہو پھر حالات سنگینی کی طرف جائیں گے اور بہت بڑی آبادی متا ثر ہو سکتی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگ شہروں سے دیہات کا رخ کر رہیں ہیں اور وہ اپنے اپ کو احتیاطی طور پر قرنطینہ ہونے کے لئیے بھی تیار نہیں ہیں ۔شہروں سے ٹسٹ کرواکے اتے ہیں۔ہو سکتا کہ وہ ٹسٹ کا رزلٹ غلط بھی اسکتا ہے اس کے لئے ان لوگوں کو قانونی طور پر یہ باور کروانا چاہیئے کہ وہ لوگ خود کو دوسروں سے علیحیدہ رکھیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکیں ۔