کالمز

آن لائن اعلیٰ تعلیم

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

کورونا کی وباء کے ساتھ دو نئی چیزیں آگئی ہیں ان میں قرنطینہ کے برابر اہمیت آن لائن اعلیٰ تعلیم کو حاصل ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات پرتمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں اور ان کے ساتھ ملحقہ کالجوں نے طلباء اور طالبات کے لئے آن لائن اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے ابتدائی اندازوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم کے118اداروں کے ملک بھر میں 10لاکھ طلباء ااور طالبات کے لئے اس طرح کی سہولت فراہم کی ہے جسے ای لرننگ(E learning)بھی کہاجاتاہے ابھی تک اس کا سروے نہیں ہوا کہ ملک کے پہاڑی اور میدانوں علاقوں میں سے کتنے اضلاع میں ڈی۔ایس۔ایل کے ساتھ منسلک وائی فائی دستیاب ہے کتنے اضلاع میں 3جی،4جی اور 5جی کی صورتوں میں انٹرنیٹ کی سہولیت ان طلباء اور طالبات کو میسر ہے اگر نہیں ہے تواپر چترال،شانگلہ،وزیرستان،مہمند،بٹگرام،تورغر،کوہستان اور اپردیر یا لوئر چترال میں گھروں پر قرنطینہ گذارنے والے طلبہ آن لائن اعلیٰ تعلیم سے کس طرح مستفید ہونگے؟یہ سوال کسی نے اپنے آپ سے بھی نہیں پوچھا،کسی بڑی یونیورسٹی سے بھی نہیں پوچھا ہائر ایجوکیشن کمیشن سے بھی نہیں پوچھا.

مارچ کے پہلے ہفتے میں طلباء اور طالبات کے ہاسٹلوں پر تالہ لگاکر ان کو گھر بیھجدیاگیا۔اپریل کے مہینے میں آن لائن اعلیٰ تعلیم کا منصوبہ شروع ہوا یہ یکطرفہ منصوبہ ہے۔یونیورسٹی آن لائن تعلیم دیتی ہے طلباء اور طالبات سے ان کا ردعمل یا فیڈ بیک لینے والوں کو اس بات کی تشویش ہے کہ رجسٹرڈ طلبہ کی بڑی تعداد کوئی ردعمل نہیں دیتی،کوئی فیڈبیک نہیں۔بات کیسے آگے بڑھیگی؟

مثلاًضلع لوئیرچترال کا رقبہ 6000مربع کلومیٹر اور اپر چترال کا رقبہ8500مربع کلومیٹر ہے۔ان دو اضلاع میں اعلیٰ تعلیم کے طلبہ اور طالبات کی تعداد2500ہے۔ان میں صرف700کے پاس وائی فائی،3جی،4جی کی سہولت ہے 1800کے پاس ایسی کوئی سہوت نہیں۔دیر اپر،دیرلوئر،شانگلہ،بونیر،تورغر،بٹگرام،وزیرستان،مہمند اور 10مزید اضلاع میں یہی صورت حال ہے۔خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے یہ طالب علم کراچی،ملتان،فیصل آباد،گجرات،لاہور،اسلام آباد،پشاور،مردان،ہزارہ،بنوں،کوہاٹ،ڈیرہ اسمٰیل خان،ملاکنڈ،شیرینگل اور چترال کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔اگر اقراء نیشنل یونیورسٹی آن لائن کلاسوں کا اہتمام کررہی ہے تو صوبے کے دوردراز پہاڑی علاقوں میں گھروں کے اندر محبوس طلباء اور طالبات ان کلاسوں سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتے آگے جاکر آن لائن کلاسوں کی بنیاد پر امتحانات ہونگے اورغالب گمان یہ ہے کہ امتحانات بھی آن لائن ہونگے تو طالبعلموں کی بڑی تعداد محض اپنے ڈومیسائل کی وجہ سے ڈگری حاصل نہیں کرسکے گی۔

بنیادی بات یہ ہے کہ داخلہ اور رجسٹریشن کے وقت طالب علم کا جو ڈیٹاحاصل کیا جاتا ہے اس میں گھر کا پتہ،ٹیلیفون نمبر ضرور ہوتا ہے اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ کورونا اور قرنطینہ کی صوبت میں وائی فائی3جی یا4جی کی سہولت ہے یانہیں ظاہر ہے آنے والے سالوں میں گھر کے پتے کے ساتھ ان جدید سہولیات کا ذکر بھی لازمی طورپرہوگا تحقیق کا نتیجہ یہ آیا ہے کہ کورونا کی موجودہ وباء 4سالوں تک آنکھ مچولی کھیلتی رہیگی ہماری بجلی کی طرح آتی جاتی رہے گی اس وباء نے چینی شہرووہان سے نکلتے وقت علامہ اقبال کا مصرعہ پلے باندھ لیا تھا”ادھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے ادھر نکلے“ابھی اس کا ویکسین دریافت نہیں ہوا ویکسین آیا توبندروں اور چوہوں پر اس کے تجربے میں بھی کم از کم2سال ضرور لگینگے ویسے بھی وائرس اور انٹی وائرس کے آن لائن کاروبار کی طرح ویکسین،ٹسنٹنگ کٹس اور علاج والاکاروباربھی دوابنانے میں کافی وقت لے لے گاابھی یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ اس کاروبار میں چین کا پلہ بھاری رہتا ہے یا امریکہ بازی لے جاتا ہے نیز یورپ کی مارکیٹ کو کتنا حصہ ملتا ہے؟گویا”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“۔

ایسے حالات میں ناقابل عمل تجاویز دی جارہی ہیں۔ تین تجاویزہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ جس طرح بازاروں،عبادت گاہوں اور ٹرانسپورٹ اڈوں کو کھولا گیا اسی طرح سٹینڈرڈ اوپیریٹنگ پروسیجرز(SOPs)کے ساتھ یونیورسٹیوں کو کھولنے کی اجازت دی جائے اعلیٰ تعلیم کا حصول بھی شاپنگ کی طرح بنیادی ضروریات میں سے ہے۔اس کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسسکتا۔اور تعلیم کے ادارے بازاروں سے زیادہ محتاط ثابت ہوسکتے ہیں اگر اس کا امکان نہیں تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے(PTA)کے ذریعے سروس دینے والی کمپنیوں کو پہاڑی اضلاع میں اپنا نیٹ ورک اپنے لائسنس کے معاہدے کے مطابق پھیلانے،چلانے اور قائم رکھنے کا پابند کیا جائے،اپٹک فائبر کی سہولت کو وسعت دی جائے تاکہ کوئی ضلع یا ضلع کا کوئی حصہ اس سہولیت سے محروم نہ ہو تحقیق کرنا بہت آسان ہے کہ کس کمپنی نے کس علاقے کے لئے3۔جی یا 4۔جی کا لائسنس کن شرائط پر حاصل کیا تھا؟تیسری قابل عمل تجویز یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پہاڑی اضلاع اپر چترال،اپر دیر،لوئیر چترال،لوئیردیر،شانگلہ،بونیر،بٹگرام،وزیرستان،مہمند وغیرہ کے طالبعلموں کے لئے مرکزی شہروں میں گرلز اور بوائز ہاسٹل مہیا کرے تاکہ اپنے خرچ پر ہاسٹلوں میں قیام کرکے طلباء اور طالبات آن لائن اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔اگر یہ بھی نہیں کرسکتی توحکومت اتنی مہربانی کرلے کہ آن لائن اعلیٰ تعلیم کا پروپیگنڈا بند کرے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button