کالمز

ہم نہ بولیں گے لفظ بولیں گے

تحریر: غالب شاہ سید،
اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج گاہکوچ غذر

کل میرے ساتھ ایک عجیب سا واقعہ پیش آیا ،آپ اسے حادثہ بھی کہ سکتے ہیں۔ اب جب میں سوچتا ہوں تو خودپر یقین نہیں آتا کہ آخر وہ کونسی قوت یا محبت تھی جس نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔میں عید کی چھٹیاں مناکر بچوں سمیت خوشی خوشی یاسین سے شام گاہکوچ گھر پہنچا تو دل میں ایک عجیب سی بے قراری پیدا ہوئی،ایک اضطرابی بے چینی سی۔ کوئی غیر مر ئی قوت  مجھ سے بار بار کہتی کہ میں اپنا پروفائل پکچر تبدیل کروں۔فوٹو گیلری میں دیکھاتو کوئی تصویرایسی نہیں بھائی جو پروفائل پکچر کے لئے مناسب ہوبہت تلاش کے بعد بیک گراونڈ پکچر جو کہ یکم نومبر کو ڈسٹرکٹ منیجمنٹ کی منعقدہ تقریب کے دوران،جسکی کمپئرنگ میں نے اورراجہ عادل بھائی نے کی تھی،کھینچی گئی تھی،کو پروفائل پکچر میں تبدیل کیا۔اور دیر تک اپنا اور راجہ عادل بھائی کا چہرہ دیکھتا رہا، کیا خبر تھی کہ ادھر میں اپنا پروفائل پکچر دیکھ رہا تھا اور دوسری طرف وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔تصویر اپلوڈ ہو چکی تھی۔پہلے دو کمنٹ عارف حسین اور اسلم پرویز کے دیکھنے کو ملے۔جس میں پروفائل پکچر کی تعریف کی گئی تھی،مگر ٹھیک پانچ منٹ بعد اسلم پرویز اور میرے ایک ہونہار شاگرد راجہ عقیل کا مسیج موصول ہوا جس کے مطابق راجہ صاحب اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ جس وقت میں پروفائل پکچر اپلوڈ کر چکا تھا عین اسی وقتدوسری طرف عادل بھائی اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔یہ محض ایک اتفاق نہیں ہوسکتا کوئی تو بات تھی جس نے مجھے ہزاروں تصویروں میں اس تصویر کو اپلوڈ کرنے پر عین اسی وقت  مجبور کیا  جب میرا بھائی شدید ترین ہارٹ اٹیک سے گزر رہا تھا اور آہستہ آہستہ  زندگی کی جنگ ہار رہا تھا۔

عادل بھائی کے مرنے کی خبر نے مجھے بے حد افسردہ کر دیا،اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ایک لمحے کے لئے دنیا رکی ہوئی سی محسوس ہوئی، نہ کھانے کو دل کیا اور نہ رات بھر ٹھیک سے سو سکا۔آنکھیں بھر آئی، دل افسردہ ہوا۔بہت خود کو سنبھالنے کی کوشیش کی مگر دل تھا کہ مسلسل بے چینی میں دھڑکتا جا رہا تھا۔ذہن ماضی کے جھروکوں سے وہ تمام یادیں ایک ایک کر کے دھرا رہا تھا جو عادل بھائی سے وابستہ تھیں۔مجھے انکا شگفتہ اور محبت بھرا چہرہ بار بار یاد آیا جس سے میری کوفت میں اور اضافہ ہوتا۔صبح جب انکی تجہز و تکفین میں شریک ہونے کا ارادہ کیا  تودل نہ مانا قدم تھے کہ زمیں سے اٹھنے کو تیار نہیں تھے۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں انکا بغیر سانسوں والا آخری دیدار کر سکتا۔بوجھل بوجھل جب داماس گراونڈ پہنچا تو انکی آخری رسومات جاری تھیں وہ عنقریب اپنی آخری آرام گاہ میں قیام کر چکے تھے۔انکے گھر تعزیت کے بعد سیدھا گھر آیا، گھر آکر میرے اعصاب ڈھیر ہوگئے اورر دنیا کی بے وفائی آئینہ ہوگئی، بار بار رویا،بار بار یادوں میں کھو جاتا۔

میں نے اپنے بہت سے پیارے کھوئے ہیں،ابا جان، آماں، ہم جماعت دوست احباب مگر اس برادرانہ پیار اور شفقت کی کیفیت الگ تھی۔آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے،دل بجھ سا گیا تھا اور کسی چیز میں من نہیں لگ رہا تھا،راجہ عادل اپنے بھائیوں کے ہی بھائی نہیں تھے وہ سب کے بھائی تھے۔ وہ اپنے ماں باپ کے بیٹے ہی نہیں تھے بلکہ وہ فرزند غذر اور فرزند گلگت بلتستان او ر فرزند پاکستان و اسلام تھے۔انکا کوئی فرقہ یا مذہب نہیں تھا وہ انسانیت کے علمبردار تھے اور انسانیت ہی انکا سب سے بڑا مسلک اور مذہب تھا۔ان میں تعصب اور لالچ نام کی کوئی چیز نہ تھی اور نہ ہی وہ شہرت کے بھوکوں میں سے تھے۔میری انکی دوستی بہت پرانی  تھی میں  نے بہت کوشیش کی کہ انکا کوئی نقص یا خامی تلاش کروں مگر میں ہر بار ناکام ہی رہا۔ان میں محبت کا ایک عجیب مادہ تھا۔انکی آنکھیں جسکو دیکھتی اپنا بنا کر رکھ دیتی۔وہ سراپا مہر و پیکر تھے۔وہ ڈانٹے ڈپٹے تو ان سے پہلے کی نسبت اور زیادہ پیار ہوجاتا۔  ان میں برداشت اور صبر وتحمل کا ایک عجیب مادہ تھا۔غصے کے لئے ان کے جذبات میں کہیں جگہ نہ تھی۔وہ سبھوں کے دوست تھے اور کبھی کوئی دشمن پیدا نہ کیا۔ نہ جانے کس مٹی کے بنے تھے؟

وہ ایک شعلہ بیاں مقرر،الفاظ کا جادو گرکمپیئرر، نعت خواں، شاعر،کھلاڑی اور صحافی  ہی نہیں تھے، وہ اس سے بہت ذیادہ تھے۔  بلکہ بے حد تھے۔بے حد پرخلوص،  بے حدروشن خیال اور بے حد زندہ دل شخصیت کے مالک تھے۔میں نے ان میں غرور نام کی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ اللہ نے سب کچھ دیا تھا۔ صورت، سیرت، خاندان، نام،شہرت،نطق اعرابی،مسکراہٹ،حسن،صحت،جسامت،دولت مگر درویش صفت ایسے کہ مہینے مہینے ایک ہی زین(Jeans) کس لیتے، مذاق کرنے پر گویا ہوتے نہیں نہیں میرے پاس ایک ہی کلر کے بے شمار زین ہیں جنکو بدل بدل کر پہنتا ہوں۔مٹی پر بیٹھے بیٹھے چائے کی چسکیاں لیتے اور جب تک چائے کی دیک ختم نہ ہوتی پیتے رہتے، نصیحتیں کرتے،مذاق مستیاں کرتے۔خود ہنستے دورسروں کو ہنساتے۔کھل کر ہنستے،گھل ملتے تھے اور کہتے،،یہ مٹی میرے چہرے کوکبھی میلا نہیں کرتی،، ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انکا مرنا انکے اہل و عیا ل کا ہی نقصان نہیں بلکہ ہم سب کا نقصان ہے۔

میں نے ان سے بہت سیکھا ہے،برداشت، مسکرانا،ہر ایک کے ساتھ محبت سے ملنا،مدد کرنا، سچ کے لئے ڈٹ جانا۔سخاوت پسندی،اشعار پڑھنا،کمپیرنگ کرنا نہ جانے کیا کیا۔ میں انہیں کہتاکمپئرنگ میں آپ میرے گرو  ہیں وہ کہتے،کمپئرنگ تو ہم نے آپ سے سیکھی ہے،فرماتے آپ کی چیف ایکزیکٹیو نثار میمن اور ڈپٹی چیف پیر کر م علی شاہ کو غذر میں خوش آمدید کرنے کی تقریب کی کمپئرنگ سے میں بے حد متاثر ہوں۔میں کہتا آپ اشعار بہت اچھا پڑھتے ہیں وو جواب دیتے اشعار اردو کے استاد سے بہتر کون پڑھ سکتا ہے۔میں کہتا آپ پہ پوڈیم بہت جچتا ہے وہ گویا ہوتے آپ ڈائس پہ کونسے کم لگتے ہیں۔الغرض یہ انکی وہ دینے والی صفات تھیں جو بہت کم لوگوں میں ہوتیں ہیں۔وہ اپنے آپ کو کبھی بڑا نہیں سمجھتے تھے۔وہ ہر بار کچھ نہ کچھ دیکر ہی جاتے اور اس کچھ نہ کچھ میں عقلمندوں کے لئے بہت کچھ ہوتا۔پیار دیتے،مسکراہٹیں دیتے،رشتے دیتے،کبھی کبھی جیب سے ایک ادھ چیونگم بھی دیتے

۔بہر حال انکا ہاتھ دینے والا ہاتھ تھا۔پڑھے لکھے لوگوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔وہ ہر کام میرٹ پر کرنے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ میں انکی اولاد سے پوری امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے بابا جان کے دئے ہوے اس قیمتی ورثے کو کبھی ضائع نہیں کرینگے جو انہوں نے ہم سب کے لئے چھوڑا ہے۔میں پورے وثوق سے کہونگا کہ غذر میں انکی جگہ ہمیشہ خالی رہے گی انکی جگہ کوئی نہیں لے سکے گا۔ ہم بہت کوشیشوں سے انکا انداز ، انکے الفاظ اور انکے اشعار چرا سکتے ہیں مگر انکا شعلہ گفتار کہاں سے لائے؟تمام اہل و عیال اور انکے چاہنے والوں کے لئے ایک بار پھر تعزیت اور معذورت کیونکہ میرے الفاظ انکی شخصیت کا خاکہ کھینچنے کے لئے ہر بار ناکافی ہی رہینگے۔ عادل بھائی آپ جنتی ہیں، ہم گنہگاروں کو یہ سعادت حاصل رہی کہ دنیا میں دو چار پل آپ کے ساتھ رہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button