کالمز

جی بی انتخابات اور میثاق معیشت

شیراز عبداللہ

2020 کا سال شروع سے ہی کچھ مسائل ہمیں عنایت کرتا رہا ہے۔دنیا ایک عجیب مخمصے کا شکار رہی ہے۔جہاں شروعات سے ہی مسائل کا سامنا تھا وہاں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حالات تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی انتہائی سست رفتاری سے چل رہی تھی کہ ایک نئے دنیاوی آفت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ اس آفت نے ہمیں ایک نئ مصیبت سے آشنا کردیا۔ اور دنیا کی توجہ اس آفت اور اس کے علاج پر لگ گئ۔

 2020 گلگت بلتستان میں انتخابات کا سال ہے اورگلگت بلتستان میں آنے والے انتخابات ایک نئ مستقبل کے ضامن ہ

ہونگے۔ اس آفت کے ساتھ ساتھ ان انتخابات کا انعقاد ایک بہت بڑا مسئلہ ہونگے۔ آنے والے انتخابات نہ صرف نگراں حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہونگے بلکہ ہماری قوم کے لئے بھی ایک امتحان سے کم نہ ہونگے۔ انتخابات کی تیاریاں اور اسکے لئے کی جانے والی کمپین (جس میں ابھی تھوڑا وقت باقی ہے)، ہر سیاسی پارٹی کا جمہوری حق ہے اور اس حق کے استعمال سے کوئ انکو روک نہیں سکتا۔ عوام نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے جمہوری حق "ووٹ” کا استعمال کرنا ہے اور انہیں بھی اس حق سے کوئ روک نہیں سکتا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں وفاقی حکومت اور ریاست کا ایک "مخوص” حصہ ہوتا ہے اور اس بات سے کوئ انکار نہیں کر سکتا کہ یہ "مخوص” حصہ علاقے کی معروضی، سیا سی، علاقائ اور جغرافیائی تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور ریاست کو اپنے اس خاص کردار کو ادا کرنے سے بھی کوئ نہیں روک سکتا۔ گلگت بلتستان کی عوام نے اسی ماحول میں رہ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں۔

 انتخابات اور ان کے نتیجے میں آنے والی حکومت جو بھی ہو میری دعا ہے کہ یہ ایک ایسی حکومت ہو جسے عوام کے مسائل کا ادراک ہو جو قوم ،نسل، برادری اور مذہبی رنگ سے بالاتر ہوکر علاقے کے عوام کی خدمت کرے۔ ایک ایسی حکومت ہو جو علاقے کو معاشی سرحدوں پر مضبوط کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو۔ گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی سرحدوں، قدرتی خوبصورتی اور  اپنے معدنی وسائل کی وجہ سے پاکستان اور دنیا بھر میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ آج تک ہم نے ان وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے کوئ خاص اقدام نہیں کیے۔ اس کا ذمہ دار کوئ بھی ہو، وجہ کوئ بھی ہو، ہمیں ان سب باتوں کو پس پشت ڈال کر ایک علاقائ پالیسی کا اعلان کر دینا چاہئے۔ ایک ایسے منشور اور "Charter of  Economy” کا اعلان ہونا چاہئے جس کی حمایت علاقے کی عوام ،سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کرنا چاہیے۔یہ ایک ایسا میثاق معیشت "Charter of Economy” ہونا چاہیے جس کی بنیاد علاقے کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہئے۔ علاقے کی لیڈر شپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آنے والے انتخابات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی کرنے سے بہتر ہے کہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کا خیال کیا جائے۔ میں گلگت بلتستان کی سول سوسائٹی، سماجی ، کاروباری اور سیاسی قیادت سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس کا صرف ایک ہی مقصد ہو کہ گلگت بلتستان کی میثاق معیشت "Character  of Economy” کی شکل کیا ہو اور کن کن نکات پر توجہ مرکوز کرکے اس میثاق معیشت  "charter of economy” کو ترتیب دینا چاہئے۔  یہ میثاق معیشت "charter of economy” گلگت بلتستان کی ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کو ترتیب دینے کے لیے ہماری میڈیا، سوشل حلقے ، کاروباری اور سماجی تنظیمیں اور ہماری نوجوان نسل کو بھی بھر پور حصہ ڈالنا چاہیے۔

 ہم "CPEC” کا دروازہ ہیں اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ یہ منصوبہ پورے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔مگر اس بات پر تشویش بھی ہونی چاہئے کہ اتنا بڑا منصوبہ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کیا دیکے جارہا ہے۔یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ان جیسے منصوبوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیں ٹھوس اقدامات اور سفارشات کے علاوہ عملی اقدامات کرنے پڑیں گے  اپنی بات کو ہر فورم اور ادارے تک پہنچانا ہوگی۔یہ ہمارا حق ہے۔ہم پاکستان کے آئین کا حصہ ہیں یا نہیں اس بات سے قطع نظر ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان ہماری رگ رگ میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ اور ہم پاکستان کی دفاع کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دینگے۔ جب جذبئہ

 محبت اس حد تک ہے تو ہمیں "CPEC” کے منصوبوں میں اپنا جائز حق بھی لینا چاہیے۔ ہم اگر ایک قوم ہوکر سوچیں تو آنے والا وقت ہمیں قصوروار نہیں ٹہرائے گا۔ ورنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button