کالمز

ابتدائی بچپن کی تعلیم – ای سی ڈی (قسط دوم)

 تحریر: دیدار علی شاہ

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد ابتدائی ماہ و سال میں رونما ہونے والے واقعات اس پر زندگی بھر کے لئے اثراندازہوسکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ اپنی والدین، ابتدائے بچپن کے اساتذہ اور نگہداشت کرنے والے افراد سے جس قسم کی تربیت پاتا ہے اسی سے اس امر کا تعین ہوتا ہے کہ وہ اسکول، معاشرہ اور اپنی عمومی زندگی کے درمیان کس طرح ربط پیدا کرتا ہے۔

Early Childhood Development ECDکی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے تقریباً بیس سالوں سے مختلف ممالک میں رائج ہے۔اس پروگرام کے طریقہ کار میں بچوں کی پیدائش سے پہلے یہ طریقہ تدریس شروع ہوتی ہے۔ خواتین کو ای سی ڈی سینٹرز میں یہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے کہ دوران حمل بہتر خوراک کا انتخاب ہوں، غور و فکر اور سوچنے کا انداز مثبت ہوں، گھر کے اندر یا آفس میں بات چیت اور کام کاج تخلیقی انداز میں ہوں وغیرہ۔ اس مثبت غوروفکر اور کام کاج سے اس بچے پر مثبت اور تخلیقی اثر ہوتا ہے۔اس کے بعد جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسے ایک سال تک گھر کے اندر بہتر ماحول دیا جاتا ہے جو کہ دوران حمل اس بچے کی ماں کو ای سی ڈی سینٹر میں یہ طریقہ کار اور ٹریننگ دی جاتی ہے۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے اس بچے کو ای سی ڈی سینٹر میں داخل کیا جاتا ہے۔ اور یہ شرط ہے کہ ایک ہفتے میں بچے کی ماں باپ اس سینٹر کا دورہ ضرور کریں اور خاص کر ماں کا ہونا ضروری ہے۔کیونکہ ماں اور بچے سب کلاس میں بیٹھتے ہیں۔ایک سال سے آٹھ سال تک کے بچوں کو ای سی ڈی سینٹرز میں کتابوں، کھلونوں، آوازوں، اشکال، ویڈیوز، آڈیوز، کہانی، کھیل کود کے زریعے سمجھایا اور سکھایا جاتا ہے۔لہذا ای سی ڈی پروگرام میں ابتدائی سالوں میں پیدائش سے آٹھ سال کی عمر تک بچے بنیادی مہارتوں اور وہ طریقے سیکھتے ہیں جو ان کی مستقبل کی تعلیم اور بقیہ زندگی میں کامیابی کے لئے نہایت ہی اہم ہوتے ہیں۔یعنی اس پروگرام کے تحت بچوں کو وہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے جس میں بچے اپنے اطراف کی اشیاکو استعمال کرتے ہوئے تجربات سے سیکھتے ہیں۔

اگر ہم ای سی ڈی کے فوائد اور خصوصیات کی بات کریں توجدید تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچے کی ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ جس کے دوران بچے میں سیکھنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہیں۔ اچھی صحت، پرورش کرنے والے محفوظ ماحول اور درست ذہنی حرکات کے زریعے سے نہ صرف بچے کی نشونما کی مضبوط بنیاد رکھی جاسکتی ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ بچہ آگے چل کر تعلیم، کام کاج اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکے۔

گلگت بلتستان میں بھی پچھلے کچھ سالوں سے ایسے ا سکولز موجود ہے جہاں پر بہتر طریقوں سے بچوں کو اس پروگرام کے طریقہ کار کے زریعے تیار کیا جا رہا ہیں۔ اور ضروری ہے کہ نئی نسل کو آنے ولے وقتوں کے لئے تیار کیا جائے۔

ابھی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کرونا وبا کی وجہ سے متاثر ہے۔ اسی لئے تمام سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز بند ہے۔ اور اسی دوران سب سے زیادہ توجہ طلب یہ چھوٹے بچے ہی ہے۔جن کی عمرآٹھ سال تک ہے اور ان کو گھروں میں خاص توجہ کی ضرورت ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اسکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ اور پڑھائی میں دلچسپی کم ہوجائے۔

اسی لئے جب بھی ممکن ہو گھر کے اندر بچوں سے بات کریں اور انہیں پیار کریں۔ آپ اپنے اردگرد کوئی بھی شے دیکھیں تو اس پر بچے کو متوجہ کریں۔ چیزوں کے رنگ، اشکال اور جسامت کے متعلق بات کریں اور نہیں چھو کر دکھائیں۔ بچوں سے مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھیں۔ والدین کا بچوں کے ساتھ تعلق اور ان کی حوصلہ افزائی بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے۔ اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ گھر کے اندر ان کو ایسا ماحول دیں کہ یہ بچے اسکول اور اساتذہ کی کمی محسوس نہ کریں اور ان کی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ اور کوشش ہو کہ ECD طریقہ کار کے مطابق گھروں میں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ چلتا رہے۔اور کوشش کریں کہ جن ECD سینٹرز یا سکولوں میں آپ کے بچے داخل ہیں ان کے منجمینٹ اور اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اور بچوں کی بات ان کے اساتذہ سے کروائیں تاکہ بچوں کو حوصلہ ملے کی انھیں واپس سکول جانا ہے۔

والدین کی طرف سے کچھ ایسے جملے ہے جس کے باربار کہنے سے بچوں کے اندر خود اعتمادی اور حوصلہ بڑھتا ہے۔مثلاً مجھے آپ سے محبت ہے، مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب آپ فلاں کام کرتے ہو، آپ نے تومجھے خوش کردیا، مجھے آپ پر فخر ہے، مجھے آپ پر بھروسہ ہے، مجھے آپ پر یقین ہے، یقینا آ پ یہ کام کرلیں گے، آپ بہت بڑی نعمت ہے، آپ ہمارے لیے بہت خاص ہے وغیرہ۔ آپ کے بچے گھر میں جو بھی کام کر لیں گے تو آپ ایسے جملے ضرور کہیں تاکہ اُن کو حوصلہ ملیں۔اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیں، مشاہدات سے انھیں سکھائیں، بچوں کو لطف اندوز ہونے دیں، دوسروں کی عزت کرنا سکھائیں، اور خاص کر بچے کو بچہ ہی رہنے دیں کیونکہ جو آپ سکھا رہے ہیں یا سمجھا رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ سب سمجھ جائے۔

جس اسکول میں آپ کے بچھے داخل ہے اُسی اسکول کے حوالے سے معلومات رکھنا ضروری ہے۔ کہ استاد اور سکول انتظامیہ کا رویہ کیسا ہے؟ کلاس روم کا ماحول کیسا ہے؟ سلبس بچوں کے عمر کے مطابق ہے کہ نہیں؟ دوسرے بچے تنگ تو نہیں کرتے؟ کہیں انگریزی یا اردو زبان مشکل تو نہیں لگ رہی؟ کلاس میں بڑی عمر کے بچوں کی عمر کیا ہے؟ اور یاد رکھیں کہ اسکول کے اندر بچوں پر تشدد کرنا جرم ہے جس کی سزا ایک سال قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ”ہر بچے کو اسکول میں پڑھنے اور سیکھنے، نقصان سے محفوظ رہنے اور اپنے صلاحیتوں کو پورا کرنے کے قابل ہونے کا حق حاصل ہے۔“

ہمارے ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کو اگر ہم مختصر بیان کریں تویہ نظام اس طرح سے کام کرتی ہے کہ بچے پڑھتے ہے، ایگزام میں شامل ہوتے ہے،ایگزام پاس کرتے ہے پھر وہ سب بھول جاتے ہے جو کچھ وہ پڑھ چکا تھا۔

ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ ” یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اس کے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہے جن کی ماوں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انھیں دینے کے لئے وقت نہیں“ اسی لیے ابتدائی بچپن کی تعلیم یعنی ECD دور جدید کے سائنسی اصولوں کے مطابق بچوں کی بہتر ذہنی و جسمانی پروریش کے لئے یہ پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ جو کہ دنیا کے پچاس سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت رائج ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں اس طریقہ تدریس کو اپنایا جائے تو پاکستان میں آنے والے نسلوں کے لئے کسی حد تک تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

اس لیے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تربیت کرنا ہمیشہ توجہ اور وقت مانگتی ہے۔اور تربیت کرتے وقت محبت سے کام لیں،

سمجھ داری سے کام لیں اور اپنی بات کے پکے رہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button