سو نا می کے متا ثرین
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
بڑی تعداد میں نو جوا ں پریس کلب کے دروازے پر جمع تھے ان کے ہاتھ میں بہت سے کتبے تھے مجھے ایک کتبے نے متا ثر کیا کتبے پر لکھا تھا ”سو نا می کے متا ثرین“ سونا می سمندری طو فان کو کہتے ہیں ہمارے ہاں خشکی میں سمندر کا جو طو فان آیا اُس کا نا م ہم نے بلین ٹری سو نا می رکھا اور سر کاری کا غذات و دستا ویزات میں اس کو BTAPنام دیا سو نا می کے متا ثرین 2سا لوں سے بے روز گاری کا رونا رو رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کو دو سا لوں سے تنخوا نہیں ملیں ان کے ساتھ نو کری میں آنے والے دوسرے لو گ اپنی ملا زمتوں پر مستقل کر دیے گئے لیکن محکمہ جنگلات کے وائلڈ لائف والے شعبے ان کو مستقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا روز بہ فر دا پر ٹال کران کو بے روز گار کر دیا محکمہ جنگلات کا دروازہ کھٹکھٹا یا تو معلوم ہوا کہ اس کا نیا نام محکمہ ما حو لیات رکھا گیا ہے ما حول یہ ہے کہ BTAPکی حیثیت ایک پر اجیکٹ کی تھی پراجیکٹ کے ملا زمین کنٹریکٹ پر لئے گئے تھے، پر اجیکٹ ختم ہو اتو کنٹریکٹ بھی ختم ہوگئی شاہ رفت شوربا رفت، یہ سیدھا سادہ معا ملہ ہے دوسری طرف سونا می کے متا ثرین کا مو قف تھوڑا سا مختلف ہے ان کا دعویٰ ہے کہ بات پرا جیکٹ اور کنٹریکٹ کی نہیں اصل بات طاقتور اور کمزور کی ہے جو لوگ طاقت رکھتے تھے وہ مستقل کر دیئے گئے جو لو گ کمزورتھے ان کی تنخوا بھی نہیں ملی ہم اگر طا قتور ہوتے تو دوسرے طاقتور لو گوں کی طرح اب تک مستقل کر دیئے جاتے کیونکہ بلین ٹری سو نا می نیا پرا جیکٹ بھی آیا ہے وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ نیا پرا جیکٹ پہلے والے پر اجیکٹ سے بڑا ہے اس میں سارے ملا زمین مستقل کر دیئے جائینگے سو نا می کے متا ثرین کے پاس وزیر اعظم کی تقریر بھی ہے جس کو انہوں نے محبت اور ضرورت کے مارے اپنے سینے سے لگا یا ہوا ہے البتہ وزیر اعظم کی طرف سے فیض کا ایک ہی مصرعہ دہرا جارہا ہے ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“ درحقیقت بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے وژن اور عوام کی تو قعات کے درمیاں کبھی دیوار چین حا ئل ہو جا تی ہے سو نا می کے متا ثرین کے لئے ایسا ہی ہوا ہے اگر کسی سہانی شام کو عوام کے مقبول اور محبوب لیڈر نے بھیس بدل کر کسی گاوں یا کسی محلے میں اپنے مداحوں کی خیر خیریت معلوم کرنے کے لئے وقت نکا لا تو ان کی زبان پر شاعر کا یہ شعر ہو گا ؎
یاد ما ضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حا فظہ میرا
مجھے درست طور پر یا د نہیں کہ16دسمبر 2014کی شام اسلام اباد کا تاریخی دھر نا ختم کرتے وقت عمران خان نے پارٹی ور کروں سے کیا وعدہ کیا تھا اور کیا وعدہ نہیں کیا تھا مجھے طاہر القادری کی وہ یا د گار تقریر یاد ہے جب انہوں نے عمران خان سے دوماہ پہلے اپنا دھر نا ختم کر تے وقت پا کستان عوامی تحریک کے پر جو ش کار کنوں سے خطاب کرتے ہوئے کنٹینر پر مکہ مارتے ہوئے کہا ”میں کہیں نہیں جا ونگا میں تمہارے محلوں، تمہارے دیہات اور تمہارے گھروں کا دورہ کرونگا میرا ہر کارکن یہاں رجسٹرپر اپنا نام اور پتہ درج کر کے جائے اور گھر جا کر میرا با لکل انتظار کرے میں تم میں سے ہر کار کن کے گھر میں اتر ونگا، تمہارا مہمان بنونگا، تمہارا حال پو چھوں گا اور تمہارے دستر خواں پر دال روٹی کھا ونگا تم مجھے نہیں بھول سکتے میں تمہیں نہیں بھو لوں گا آج اس واقعے کو 6سال گذر چکے ہیں میں نے اپنا جو پتہ منہا ج القرآن کے رجسٹر پر لکھوا یا تھا میں اب بھی اسی محلے کے اُسی گھر میں رہتا ہوں ہر صبح اُٹھ کر طا ہر القادری کی تقریر سنتا ہوں ہر شام ان کی آمد کا انتظار کر تا ہوں پھر اپنے آپ سے کہتا ہوں ”کنٹینر کھا گئی آسمان کیسے کیسے“ میرے احباب کہتے ہیں ما یو سی گنا ہ ہے دھر نے میں طا ہر القادری کے کارکنوں کی تعداد 10ہزار سے اوپر تھی وہ ہر ہفتے اگر ایک کارکن کے گھر جا کر دال روٹی کھا ئے تو تمہارے دروازے تک آتے آتے 350ہفتے اور ڈھا ئی ہزار دن لگینگے یوں مشکل 7سال بعد تمہاری باری آئیگی اب گنگناتے رہوں ؎
انہی پتھروں پر چل کر آسکوتو آ جا ؤ
میرے گھر کے راستے ہیں کوئی کہکشاں نہیں
سو نا می کے متا ثرین کا معا ملہ بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہے 2016ء میں BTAPکا پرا جیکٹ آیا تو ہر گاوں سے تحریک انصاف کے تبدیلی رضا کاروں کو چُن چُن کر اس میں بھر تی کیا گیا یہ نو جواں عمران خا ن کے شیدا ئی تھے اُس وقت کمزور اور طا قتور کا فر ق نہیں تھا جب پر اجیکٹ کے بعض ملا زمین کو نو کری سے نکا لنے کا مر حلہ آیا تو ان میں سے انفرادی کمزور وں کو نکا ل دیا گیا پھر جب نیا پر اجیکٹ آیا تو اس کے ساتھ جنگل کا قا نون لا یا گیا، سوات اور مانسہرہ کے اندر کسی کوبے روز گا ر نہیں کیا گیا چترال پائین، چترال بالا، دیر پائین اور دیر بالا کے اضلاع پر کلہاڑی چلا ئی گئی ان کو لا وارث، یتیم اور کمزور قرار دے کر نظر انداز کیا گیا چترال بالا کا نیا ضلع خصوصی طور پر محکمہ ما حو لیات کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لئے محکمہ ما حو لیات نے اپر چترال کے ملا زمین کے خلا ف کلہاڑی کا بے دریغ استعمال کیا ہے سو نا می کے جو متا ثرین کتبے ہاتھ میں لیکر پریس کلب کے دروازے پر دھر نا دیئے ہوئے ہیں یہ وزیر اعظم عمران خان کے شیدائی ہیں مگر بے روز گاری سے تنگ آگر احتجا ج کر رہے ہیں