کالمز

ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم ! آہ! ڈاکٹر عبدالقیوم 

تحریر :زاہد عبدالشاہد، گلگتی
زندگی کے وہ مشکل مراحل جنہیں میں عمر بھر نہیں بھلا سکتا ،ان میں سے ایک  16 شوال 1441ھ کی وہ رات ہے جب مجھے سعودی عرب سے  ایک عزیز کا فون موصول ہواکہ ہمارے محسن و مربی ،ہر دلعزیز شخصیت  مولانا ڈاکٹر عبدالقيوم داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئےاس دار فانی سے رحلت فرماگئے ہیں۔میں نے یہ اطلاع کیا سنی کہ سب کچھ بھول گیا ، نہ سمجھ آئے موبائل پر ہیلو ہیلو کرنے والے کو کیا کہوں، گھر میں جب کہ سبھی نیند میں ہیں، کیسے اطلاع دوں،بے سکونی اتنی بڑھی کہ صبح فجر تک سنبھل نہ سکا۔
گلگت بلتستان کے گاؤں گلاپور میں عبد رب النبی کے گھر  پیدا ہونے والے عبدالقیوم نے  ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی،  دارالعلوم نانکواڑہ سے حفظ قرآن کریم مکمل کیا پھر جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن ،اور دارالعلوم کراچی میں اکابر علماء سے استفادہ کرتے رہے۔دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کے دونوں بزرگوں علامہ یوسف بنوری اور مفتی محمد شفیع سے مکمل استفادہ کیا اور دونوں بزرگوں کی تربیت میں رہنے کا شرف حاصل کیا۔ مفتی محمد شفیع، مولانا یوسف بنوری، مفتی رشید احمد، مولانا سلیم اللہ خان، مولانا سحبان محمود،  مولانا شمس الحق اور مفتی محمد رفیع عثمانی ومفتی محمد تقی عثمانی جیسے نام آپ کے نمایاں اساتذہ میں شامل ہیں ۔ دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مفتی محمد شفیع کے حکم پر حجاز مقدس کا سفر بھی مزید تعلیم وتربیت کے لیے کیا، جہاں  معروف اہل علم  سے استفادہ کرتے رہے۔پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ میں پڑھتے رہے جبکہ  پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جامعہ ازہر مصر تشریف لے گئے ۔جامعہ ازہر مصر میں  سنن امام دارمی پر تحقیقی  کام  کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔پھر واپس مکہ مکرمہ آئے اور جامعہ ام القریٰ  کے شعبہ تالیف سے منسلک ہوگئے۔ ام القریٰ کے شعبہ تالیف میں آپ کے علمی کام کو شیخ سبیل جیسے ائمہ حرمین نے سراہااور آپ کی تحقیقات کو پسند کیا۔ حدیث وأسماء الرجال میں آپ کو گہری دلچسپی تھی ، یہی وجہ ہے کہ علوم حدیث، اور رجال سے متعلق کئی کتابوں پر تحقیقی کام کیاجبکہ اس عنوان پر  کئی کتابیں تالیف فرمائی۔جن میں سے اہم "نهاية السول ” نثل الهميان في معيار الميزان”،” تكملة الإكمال”،”ذيل ميزان الاعتدال”،” الكواكب النيرات” "رسالة المرام في أحوال بيت الله الحرام” خاصی معروف ہیں۔ مخطوطات پر آپ کو کام کا وسیع تجربہ تھا۔ فہرس مخطوطات الحرم المکی بہت بڑا علمی پروجیکٹ ہے جس میں کئی محققین نے کام کیا ،مگر اس کا اکثر کام  ڈاکٹر عبدالقیوم نے کیا ہے جبکہ اس پروجیکٹ کو لیڈ بھی خود کررہے تھے۔
ڈاکٹر عبدالقیوم  قرآن کریم کے صحیح معنوں میں عاشق تھے- قرآن کے حفظ کو اتنا فروغ دیا کہ اس وقت گلگت کے  گاؤں گلاپور کے ہر محلے بلكہ گھر  گھر میں ایک نہیں کئی کئی حافظ قرآن ہیں۔ڈاکٹر عبدالقیوم کے گھر   کو ہر شخص بيت القرآن کہتا ہے اور لوگ قرآن کریم سے ان کے اس والہانہ تعلق پر رشک کرتے ہیں۔کئی عرب محققین اور علماء کو ان کے گھر کو بیت القرآن جبکہ ان کو خود خادم السنة النبوية کا لقب تواتر سے استعمال کرتے دیکھا۔ ویسے تو وہ بہت متنوع صفات کے حامل انسان تھے جن  کا احاطہ اس مختصر کالم یا مضمون میں  نا ممکن ہے، مگر تواضع، للہیت، عاجزی و  انکساری  ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرنا، تحمل سے بات کو سننا آپ  کا خاصہ تھا، دل درد مند، زبان ہوشمند، ذہن ارجمند کے  وہ صحیح مصداق تھے ۔  ان کے علم وحلم، تقوی واخلاص وللہیت، قرآن سے خصوصی لگاؤ،  خاندان پر ان گنت احسانات، اہل علم اور اولیاء سے والہانہ تعلق اور مجھ جیسے انسان پر بے شمار احسانات جو مجھ سے پہلے میرے والد مرحوم پر بھی کیے ،ایک ایک احسان کو یاد کرتا ہوں تو دل سے ان کے لیے ڈھیروں دعائیں نکلتی ہیں۔ وہ زیادہ علیل تھے نہ  ہی مستقل  مریض ۔ چند دنوں  کے بخار کے بعدجب ان کے  اچانک اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے کی اطلاع ملی تو مجھے  بے یقینی کی کیفیت  نے آ گھیرا، پھر یاد آیا کہ جب دنیا میں ہم آئے ہی جانے کے لیے ہیں تو پھر کیسی بے یقینی۔ جانا تو سب نے ہے کیا غریب توکیا امیر، کیا عالم تو کیا جاہل، کیا پیر تو کیا مرید، کیا حاکم تو کیا محکوم۔البتہ کچھ لوگوں کے جانے سے صرف انکی اولاد ہی نہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان یتیم ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقیوم کی رحلت سے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ اللہ پاک انہیں کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button