کالمز

زندگی یا موت کا انتخاب

ازعافیت نظر

پچھلے دنوں پنجاب کے وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا وہ [پاکستانی] تو کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے، میں تو کہتی ہوں کہ شاید ہی کوئی قوم اتنی جاہل ہوگی جس طرح کے ہم لوگ ہیں۔

اس پر سوشل میڈیا میں کافی لے دے ہوئی۔ لیکن کیا یاسمین راشد نے کوئی انہونی بات کی ہے؟ پاکستان کی کونسی باتیں ہیں جنھیں آپ قابل فخر سمجھتے ہیں؟ قانون کی عملداری؟ تعلیم یا تحقیق کے میدان میں معرکہ آرائی؟ ٹیکنالوجی؟ جنڈر اکویٹی؟ حقوق انسانی؟ معشیات؟ خارجہ تعلقات؟ غرضیکہ کوئی بھی میدان لے لیجیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ پاکستان کی تصویر کیسی لگ رہی ہے۔ اگر بری نہیں تو قابل فخر بھی نہیں ہیں۔ اور ان تمام باتوں یامسائل کی جڑمعیّاری تعلیم کافقدان ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عام تعلیم کے مواقع بھی کافی بڑی آبادی کےلیے ۲۰۲۰ میں بھی دستیاب نہیں۔ بڑے بڑے دانشور تسلسل کے ساتھ یہ بات کہتے آئے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کا کردار کلیدی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ۲۶ ستمبر۱۹۴۷ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ: تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلیم میں ترقی کے بغیرنہ صرف ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ہم صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

مگر ہمارے حکمرانوں نے تعلیم کو اپنے ترجیحات میں ہی شامل نہیں کئے۔ جس کی وجہ سے جہالت کے خود رو پودوں کی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔ نتیجۃً وہ پودے اب تناوردرخت بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے قوانین کوتوڑنا معمول کی بات ہے۔ اور اکثر قانون توڑنے والے قانون کی گرفت میں نہیں آتے۔ خصوصاً جب ان کا تعلق طاقتور طبقوں سے ہو۔

اس لیے جب معیاری تعلیم کی دستیابی نہیں ہوگی تو نہ تو ہم اپنے اورنہ ہی دوسروں کی تاریخ سے کچھ سیکھنے کے قابل ہوں گے۔ یورپی ممالک کی تعلیمی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگائے جب ٹونی بلیئر انتخابات لڑ رہے تھے تو انھوں نے ایک الیکشن کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: مجھ سے میری حکومت کے تین اوّلین ترجیحات کے بارے میں سوال کیجیے اور میں آپ سے کہوں گا کہ تعلیم، تعلیم اور تعلیم۔ اوربرطانیہ کے عوام نے ٹونی بلیئر کی ان ترجیحات کی وجہ سے اُس ملک کا وزیراعظم بنا دیا، جہاں پہلے ہی سے آکسفورڈ، کیمبریج اور دوسرے اعلیٰ اور معیاری تعلیمی اداروں کی بھرمار ہیں۔

اسی طرح سے تعلیم کے حوالے سے جاپان کی مثال لیجیے جہاں ۱۵۰سال قبل تعلیم کی اشاعت کے حوالے سے ایک قانون بنایا گیا تھا، جسے فنڈامنٹل کوڈ آف ایجوکیشن ۱۸۷۲کہا جاتا ہے۔ اس کوڈ میں اس بات کا عزّم کیا گیا تھا کہ جاپان میں کسی کمیونٹی میں کوئی خاندان، اور کسی خاندان میں کوئی فرد ناخواندہ نہ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جاپان  بیسوی صدی کے اوائل میں ہی مکمل طور پر خواندہ افراد پر مشتمل قوم کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئی۔

مغربی ممالک میں تعلیم کا معیّار اچھا ہونے کی وجہ ان کے ہاں بہت سے قابل ذکر دانشور، اساتذہ، سائنسدان اور راہنما پیدا ہوئے۔ جنھوں نے نہ صرف اپنے معاشرے کی تربیت اور ترقی میں اہم کردار ادا کئے۔ بلکہ اُن کی کاوشوں کے ثمرات سے بنی نوع انسان مستفید ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے بہت سے اہل ثروت بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مغربی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کی ہے کہ اکسفورڈ، ہارورڈ، کیمبریج، برکلے یا دوسرے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنے ملکوں کی تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے سے قاصر رہے۔ ایسے میں ان ممالک کی شہریوں کے مزاج اور روّیہ کیسے ذمہ دارانہ ہوسکتا ہے؟

ٹریفک کے قوانین ہی کو لے لیجیے ما سوائے چند استثناء کے روز ان قوانین کی دھجیان اُڑائی جاتی ہیں اور صرف پولیس کے ادارے پر ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک قوانین ابتدائی بچپن کی تعلیم کے نصاب کا لازمی حصّہ ہے۔ اس لیے جب بچے سکول سے ہی ٹریفک قوانین کے فوائد کوعملی طورپر دیکھتےاور سیکھتے ہیں تو بڑے ہو کر ان قوانین پر عمل درآمد کو وہ خود یقینی بناتے ہیں۔ اس طرح پولیس کے ادارے کو دوسرے مسائل پر انہماک کے ساتھ توجہ دینا ممکن ہوجاتا ہے۔

تعلیم کےعمل پر قوموں کی تربیت سازی اور ترقی کا دارومدارہوتا ہے۔ اور تعلیم انھیں اس قابل بنادیتی ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ جوانمردی سے کریں۔ ہمارے سامنے دو شکست وریخت سے دوچار ممالک جرمنی اور جاپان کی مثالیں موجود ہیں جنھیں جنگ عظیم اول اور دوم کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اتنے تباہ کن جنگوں سے گزرنے کے باوجود آج وہ قومیں پھر ترقی یافتہ اقوام کے صف اول کے ممالک میں شامل ہیں۔

مگراس قوم اور ان کی حکمرانوں کو کیا کہا جائے جو دعویٰ کی حد تک تو اِقراء پر یقین کرنے والے ہیں اور عملاً ان کا اِقراء کے پیغام سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ جس معاشرے میں بقول یاسمین صاحبہ جہالت کی بھر مار ہو، ان سے اِقراء کے پیغام کے ساتھ کوئی تعلق کیسے ہوسکتاہے؟ یقیناً جہالت کی زیادتی کا مطلب علم کی کمی ہے، اور فارسی شاعر ناصر خسرو نے علم اور جہالت کا موازنہ اپنے اشعار میں یوں کیے ہیں:

مرگ جہل است و زندگی دانش
مردہ  نادان و زندہ دانایان

جہل مانند نیست علم چو ہست
جہل چون درد علم چون درمان

ہست مانند علم دانا مرد
نیست گردد بجاہلی نادان

یعنی جہالت موت ہے اور دانش یا جاننا زندگی ہے، نادان مردہ ہوتے ہیں اور دانا یا جاننے والا زندہ۔ جہالت "نہیں ہے”  کی طرح ہے اور علم "ہے” کی طرح۔ جہالت "درد” کی طرح ہے اور علم اس کے "علاج” کی طرح۔۔۔۔ یقیناً بہت سے دانا لوگوں نے تعلیم کو بہت سے مسائل کا علاج قرار دیا ہے۔اور قائداعظم کے الفاظ میں بھی

“تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے”

بالفاظ دیگر پاکستان تعلیم کے بغیر اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے جو قوم زندہ رہ کر ترقی کرنا چاہتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ترقی یافتہ اقوام کے تاریخ اور اداروں سے سبق لیکر اپنے معاشرے میں معیّاری تعلیمی اور تحقیقی ادارے بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ نتیجتاً معاشرے میں سوچ کے معیّار میں بتدریج اضافہ ہوگا اور معیاری تعلیم کے ذریعے جہالت، غربت، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، اور دوسرے مسائل کے حل نکلتے آئیں گے۔ لیکن اگراب بھی تعلیم ہماری ترجیحات میں نہیں تواس کا مطلب یہی ہے کہ بطور قوم  ہم نے زندگی کی بجائے موت کا انتخاب کیا ہے۔

عافیت نظرایک محقق اور لکھاری ہیں ان کے کالمز انگریزی اخبارات، ڈیلی ڈان، ڈیلی ٹائمز اور دوسرے اخبارت میں شائع ہوئے ہیں۔یہ مضمون ہم سب میں پہلے شائع ہوا ہے۔

https://www.humsub.com.pk/329604/aafiyat-nazar-5/

آپ کی رائے

comments

عافیت نظر

عافیت نظر تعلیم و تربیت اور پیشےکے لحاظ سے ماہر تعلیم ہیں۔

متعلقہ

Back to top button