قانون سازی کی آڑمیں جعلسازی
بقلم: حیدر سلطان ایڈوکیٹ
قانون سازی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ قانون بنانے والے عوامی سوچ، سب سے بڑھ کر عوامی فلاح وبہبود، حالات و ضروریات اور دیگر عوامل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کرتے ہیں۔کوئی قانون اسمبلی پاس کرے اور اس میں کوئی سقم رہ گیا ہو، کوئی لفظ یا پورا جملہ غلط لکھا گیا ہو مثال کے طور پہ قانون سازوں نے لفظ ”قانون سازی” کو غلطی سے ”قانون سوزی” درج کیا ہو تو ایسی صورت میں بھی کسی شخص (خواہ کسی بھی اہم عہدے پہ ہو) یا ادرہ (جتنی بھی اہمیت کا حامل ہو) کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ اس جملے کو اپنی مرضی سے تبدیل کرے۔ ایسا کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص یا ادارے کو فوجداری مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اور جب تک متعلقہ اسمبلی لفظ قانون سوزی کو حذف کرکے قانون سازی درج نہ کرے قانون کے مطابق قانون سوزی کو ہی صحیح لفظ تصور کیا جائے گا۔
کوئی بھی قانون بنانے یا اس میں ترمیم کرنے کی تجویز مسودہ قانون یعنی اس قانون کے مجوزہ مسودہ کی صورت میں اسمبلی میں پیش کی جاتی ہے۔ مسودہ قانون دراصل قانون بنانے کی ایک تحریک ہوتی ہے۔مسودہ قانون کے نوٹس میں بیان اغراض ووجوہ شامل ہونالازمی ہے۔صوبائی قانون سازی کے دائرہ کار میں آنے والے کسی معاملہ کے بارے میں مسودہ قانون،قواعد کے تابع، اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۱ ور سپیکر اسے مقررہ تاریخ تک اس کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کے ساتھ متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کردیتا ہے۔جب مسودہ قانون پر سٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہوجاتی ہے تو مسودہ قانون پر اسمبلی اجلاس میں تفصیلی بحث کے بعد مزید بہتر بناکر پاس کیا جاتا ہے۔کوئی بھی مسودہ قانون اسمبلی سے منظور کیے جانے کے بعد گورنر کو ارسال کیا جاتا ہے۔گورنر کے دستخط کے بعد اسکو سرکاری گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے مشہور زمانہ پراسکیوشن بل (عرف ماما،چچا،بھتیجا) بل پاس کیا۔ اس بل کو ڈرافٹ کرنے کے اغراض و مقاصد اپنی جگہ مگر مزکورہ بل میں بلکل آخری دنوں میں کچھ بانجھے بھتیجوں کی ملازمت ریگولر کرانے کیلئے ایک ایسا پیرہ شامل کیا گیا جو کہ بل ڈرافٹ کرتے وقت زیر تجویز و تحقیق ہی نہ تھا۔ اس ایک پیرے نے جہاں متعلقہ قانون سازی کو قانون سوزی میں تبدیل کیا وہی پہ گلگت بلتستان کے تمام وکلاء اس بل کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئے اور یہ احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بناء پہ اس تحریک کو لیڈ کرنے والوں نے اچانک چپ کا روزہ رکھا۔ یوں میرٹ کے قاتلوں کو اس طرح کے واردات کرنے اور غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دینے اور اپنوں کو نوازنے کیلئے قانون سازی کرنے میں مزید آسانیاں پیدا ہوئی۔اب کی بار ان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ اسمبلی سے پاس کردہ بل میں اسمبلی سے باہر ہی ترمیم (جعلسازی)کرنے لگے جو کہ نہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بنے گا بلکہ دنیا کا انوکھا ترین طریقہ واردات بھی کہلائے گا۔
نون لیگی حکومت نے بڑے زور و شور سے مورخہ 8 مئی 2020کو The Gilgit-Baltistan Employees Regularization of Services ACT 2020 اسمبلی سے پاس کرانے کیلئے اپوزیشن لیڈر کو بطور ٹیشو پیپر استعمال کیا۔ یہ بل از خود بھی ایک طرح سے گلگت بلتستان کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل پہ ایٹم بم گرانے کے مترادف تو تھا ہی مگر مزکورہ بل کو اسمبلی میں لانے کے طے شدہ قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پرائیویٹ بل کی صورت میں اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اسی دن اسکو پاس کرکے گورنر کے دستخط کے لیے ارسال کردیاگیا۔گورنر نے اس پر دستخط کے بجائے کچھ اعتراضات لگا کر اسمبلی کو واپس بھیج دیا یوں وزیر قانون اورنگزیب خان ایڈووکیٹ نے اسمبلی کے 47 واں اجلاس میں گورنر کے اعتراضات کو بیکار اور بے سود قرار دیتے ہوئے سابقہ حالت میں پاس کرنے کی استدعا کی۔جس پر اسمبلی ممبران نے اس بل کو سابقہ حالت میں پاس کیا۔ اسمبلی فلورپروزیر قانون نے اعلان کیا کہ اس بل کو ہم اسی حالت میں منظور کرتے ہیں اور قانونی لحاظ سے اب یہ قانون بن گیا گورنر صاحب کے دستخط کی بھی اب کوئی ضرورت نہیں ہے. اسی طرح انہوں نے اس بل کا پورا سیاسی کریڈٹ بھی لے لیا.
حیران کن بلکہ پریشان کن صورتحال تب سامنے آگئی جب یہ بل گزٹ آف پاکستان سے پبلش ہوکر آیاتو معلوم ہوا کہ اس میں ایک ایسا پیرا شامل ہے جس کا ثبوت نہ تو اسمبلی اجلاس کے منٹس میں ملتا ہے؛ نہ اس بل کو پاس کرتے وقت ریکارڈ کی گئی آڈیو ریکارڈنگ میں اور نہ ہی اس ترمیم شدہ پیرے کے حوالے سے اسمبلی میں کسی قسم کاکاغذی حوالہ موجود ہے۔ہاں مگر اوریجنل کاپی ضرور موجود ہے جس کو دیکھ کر واضح ہوجاتا ہے کہ کس قدر اور کتنی آسانی سے قانون کا کھلوڑا بنایا گیا۔ ان عناصر کو خوف قانون تو روز اول سے نہیں تھا مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنوں کو نوازنے اور غیروں سے نوازے جانے کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ ان کے دلوں میں روز آخر (قیامت) کا خوف بھی نہ رہا۔ انہوں نے مزکورہ بل کے پیرا نمبر 3 جو کہ کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کے بابت تھا کو اپنی مرضی سے ترمیم کیا اور اس پیرے کو یوں ڈیزائن کیا کہ وفاقی ملازمین جو کہ ڈیپوٹیشن رول کے تحت گلگت بلتستان حکومت کے ماتحت اداروں میں کام کررہے ہیں وہ انہی اداروں میں ضم ہونگے۔ جعل سازی اور ہیرا پھیری اپنی جگہ مگر اس جعل سازی کے نتیجے میں وفاقی ملازمین گلگت بلتستان حکومت میں ضم ہونا شروع ہونگے تو بے روزگار نوجوانوں کی جانب سے مستقبل قریب کیلئے رکھی جانے والی سرکاری نوکری کی امید بھی اس جعل سازی کے کامیاب ہونے کے بعد دم توڑ دے گی یہی وجہ ہے کہ یہ ہیرا پھیری نہ صرف قانون کا قتل کہلائے گی بلکہ بیروزگار نوجوانوں کا مستقبل مستقل طور پہ تاریک کرنے کی تاریخ کی سب بڑی اور آخری سازش بھی ثابت ہوگی۔ ساتھ ہی سول سروس ایسوسی ایشن نے بھی اپنی پریس ریلیز سے واضح کیا ہے کہ یہ گلگت بلتستان سول سروس کو تباہ کرنے کی سازش ہے اس مبینہ جعل سازی کے منفی اثرات ہونگے اور کسی صورت اسکو برداشت نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس مبینہ جعلسازی میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے. ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی تک مقتدر ادارے خاموش کیوں ہیں؟
زرائع بتاتے ہیں پیرا نمبر 3 میں اسمبلی کے بجائے فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر کی جانے والی تبدیلی کے پیچھے کچھ مخصوص بندوں کو نوازنے کی سازش ہے۔ یہ بندے وفاقی اداروں کے ملازم ہیں اور ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ اپنی ملازمت کو وفاق سے گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ ضم کروائیں۔ ایسا کرنے کیلئے انہوں نے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کیا۔ بات نہ بنی۔ کورٹ میں گئے اور فیصلہ خلاف آیا، اپیل پہ چلے گئے اپیل پہ فیصلہ آنا باقی ہے۔ ان کو کیس کا پورا پتہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی دلی خواہش کو قانونی حیثیت ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
شاید اسی وجہ سے ان لوگوں نے شارٹ کٹ ڈونڈھا ہو۔ سپریم اپیلٹ کورٹ کی دیوار پھلانگ کر سیدھے اسمبلی پہنچے ہوں۔ایک ہی سانس میں ساری کہانی چچا بھتیجا بل پاس کرانے والوں کے آگے سنائی ہو۔ انہوں نے سر پہ ہاتھ رکھ کر بتایا ہو کہ پگلے۔۔۔یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ قانون سازی تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے مگر آپ لوگوں کو شاید ہماری طاقت کا اندازہ نہیں تھا جو ہماری خدمات حاصل کرنے کے بجائے قانونی جنگ لڑنے میں وقت ضائع کیا حالانکہ قانون بنانے والے ہم ہیں۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا، کاش کہ آپ کچھ دن پہلے تشریف لا چکے ہوتے۔ چچا بھتیجا سے بھی مشہور زمانہ بل ہم نے پاس کیا ہے۔ اس بل کے پاس ہونے کے بعد ہماری کمائی میں دن دگنی رات چگنی ترقی بھی ہوئی ہے۔ گریڈ ایک سے سات تک 3 لاکھ اور اور گریڈ 14 تک سات لاکھ کی بولی لگتی ہے۔ ہم بس اس بل کے تناظر میں بیک ڈیٹ پہ اپائمنٹس کرواتے ہیں۔ بھلا ہمارے لئے کون سی مشکل تھی چچا بھتیجا بل میں جس طرح اچانک سے رشتہ داروں کو نوازنے کیلئے ایک پیرہ ڈالا تھا ویسے ہی اس بل کے کسی کونے میں چوری چھپے آپ کے لیے بھی ایک پرویژن ڈال دیتے مگر صد افسوس کہ اب یہ بل پاس ہوچکا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے قانون سازی کتنا مشکل عمل ہے۔ اس سٹیج پہ کوئی ہیرا پھیری کرنا خود کو فوجداری مقدمے میں عدالتی کٹہرے میں کھڑے کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کے فرمایا ہوگا سائیں۔۔۔کوئی تو طریقہ ڈونڈھو۔ آپ کی دلیری کے آگے عدالتوں کی کیا اوقات۔ آپ کے بنائے ہوئے قوانین پہ تو عدالتیں چلتی ہیں۔ آپ اگر کرنے پہ آئیں تو ان عدالتوں کو ختم کرنے کے بابت بھی قانون سازی کر جائیں۔ جواب آیا ہوگا ترمیم واحد حل ہے مگر اسمبلی کا میعاد اختتام پزیر ہونے کو ہے اسلئے فی الحال ناممکن ہے۔ اگلی اسمبلی سے رجوع کیجئے۔۔!! اوہ سائیں!!! اگلی اسمبلی کا کیا بھروسہ کہ آپ کی جتنی دلیر ثابت ہو۔کوئی اور طریقہ۔ کچھ لے دیکر؟؟ پھر اللہ جانے کسیے کیسے وعدے وعید ہوئے ہونگے۔ کس کس شیر کے بچے نے اس کار خیر میں کردار ادا کرتے ہوئے پیرا نمبر 3 کا بلد کار کیا ہوگا۔
اسمبلی کو اعتماد میں لئے بغیر بل کے پیرا نمبر 3 میں ترمیم ہوگئی۔ سپیکر اسمبلی سمیت تمام سیکرٹریزنے دانستہ یا غیر دانستہ طور پہ دستخط ثبت کرلئے۔ جعل سازی کو بڑی مہارت کیساتھ گزٹ آف پاکستان میں شامل بھی کروایا گیا۔ ڈیپوٹیشنسٹ کی دلی اور دیر پا خواہش بھی بادی النظر میں پوری ہوگئی۔ ہر زی شعور کو ہیرا پھیری میں ماہر نوسر بازوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ بھی ہوگیا مگر سوال یہ ہے۔ ان نوسربازوں کی جراعت کو خراج تحسین کیسے پیش کیا جائے۔؟ اس جعل سازی میں میں ملوث شیر (جانور) کے بچوں کے نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیسے کروایا جائے۔ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کون سی عظیم شخصیت کا انتخاب کیا جائے۔ وزیر اعظم پاکستان کو اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے وہ بھلا ایسے کارناموں کی کیوں کر خبر گیری کریں۔ صدر پاکستان صاحب تو ہیں ہی مصروف شخصیت انہیں پارٹی معاملات بھی دیکھنے ہوتے ہیں ؎لہذا ان سے بھی حوصلہ افزائی کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ گورنر گلگت بلتستان صاحب سے یاد آیا جناب نے نہ صرف چچا بھتیجا بل پاس کرانے میں اپنا حصہ ڈالا تھا بلکہ اس جعل سازی والے معاملے میں بھی ان کے دست مبارک کے سائن موجود ہیں تو گورنر صاحب کا نام بھی انعام وصول کرنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں تو وہ بھی اس دوڑ میں شامل نہیں ہوپائینگے۔
لے دیکر سپریم کورٹ آف پاکستان اور سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان رہ جاتے ہیں۔ بہت کم مگر کچھ امیدیں انہی اداروں سے وابسطہ رکھی جاسکتی ہیں کہ مزکورہ ادارے ان شیر کے بچوں کی دلیری کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایک دعوت نامہ بھیج دیں اور اپنے پاس بلائیں۔ ان سے پوچھیں کہ بغیر کوئی زخم دیئے قانون کا قتل کیسے کیا جاتا ہے۔ جنازے کی تدفین میں وارثوں (اسمبلی ممبران) کو خاموش کرانے کیلئے کیا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے پوچھیں اپنوں کو نوازنے کیلئے آخری تک جانے کیلئے کتنا بڑا دل چاہیئے ہوتا ہے۔ ان سے سوال کریں کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرکے خود کو آباد کیسے کیا جاتا ہے۔ زرا معلوم کریں کہ انہوں نے غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دینے کا ہنر کہاں سے سیکھا ہے۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے عقل سے پیدل نام نہادقانون کے رکھ والوں سے پوچھ لیں کہ وفاق سے ڈیپوٹیشن پہ لائے گئے ملازمین کے بابت اس طرز کی قانون سازی کرنا خود صوبائی اسمبلی کے بھی دائرہ اختیار میں نہیں آتا تو آپ لوگوں نے اتنی بڑی آنکھ مچولی کیوں اور کتنے میں کھیلی۔ان غریبوں کو شاید دو وقت کی روٹی اور آرام و آسائش کی فکر ہے لہذا ان کے کارناموں کااعتراف کرتے ہوئے انہیں مناور میں موجود بنگلہ نما اعلی شان بلڈنگ میں مفت رہائش اور کھانا فراہم کرتے ہوئے خوب خاطر مدارت کریں۔ ان سے جعل سازی اور ہیرا پھیری کے وہ خاص طریقے اگلواکر پبلک کریں جن کو سن کر دنیا سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی اور۔۔۔!!!
قانون سازی کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے نوسرباز مافیاء کی جانب سے کمال مہارت سے کی جانے والی اس آخری ہیرا پھیری اور جعل سازی کے اعتراف کرتے ہوئے ضابطہ فوجداری کے تحت اعلی ترین سرٹیفیکٹ سے نوازدیں۔
تاکہ سند رہے۔