جوڑ توڑ کب تک؟
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
خبر یہ ہے کہ سر کاری شعبے کی یو نیورسٹیاں ما لیاتی خسارے سے دو چار ہیں تر قیا تی کام ڈیڑ ھ سال پہلے روک دیئے گئے تھے اس سال سر کاری یو نیورسٹیوں کے پا س ملا زمین کی تنخوا ہیں اور پنشن ادا کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں بقر عید پر اکثر یو نیور سٹیوں نے ملا زمین کو پنشن اور تنخوا ہوں کی ادائیگی سے معذرت کی ہے خیبر پختونخوا کی سب سے پرا نی یو نیورسٹی جا معہ پشاور بھی ان میں شا مل ہے یہ بحران کب آیا اور کیسے آیا ایک مشہور تر بیتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ ہمارے ہاں پہلے انسان کو توڑ کر اس کی پرانی شنا خت اور نفسیات کو مٹا یا جا تا ہے پھر نئی شنا خت دے کر نئی نفسیات کے ساتھ اس کو مطلو بہ شخصیت کا روپ دیا جا تا ہے ایک دل جلے نے کہا بعض اوقات آپ انسان کو توڑ نے کے بعد دوبارہ جو ڑنا بھو ل جا تے ہیں تو اس کی شخصیت مسخ ہو جا تی ہے پبلک سیکٹر کی یو نیورسٹیوں کے ساتھ یہ عمل دہرا یا گیا ہے در اصل اسلام اباد میں ایک ادارہ تھا ہائیر ایجو کیشن کمیشن اس کا نام تھا جنرل مشرف نے ڈاکٹر عطا ء الرحمن کو اختیار دیا تو انہوں نے یو نیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائیر ایجو کیشن کمیشن بنا یا اس کو سر کاری شعبے کی یو نیورسٹیوں کا استعداد کار بڑ ھانے کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر اور ملک سے با ہر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے سکا لر شپ دینے کی ذمہ داری بھی دیدی پھر یو ں ہوا کہ 2018ء میں ہائیر ایجو کیشن کمیشن میں توڑپھوڑ شروع ہوئی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکا لر شپ بند ہوئے لیپ ٹا پ سکیم ختم ہوئی اور نو بت یہاں تک آگئی کہ سر کاری شعبے کی یو نیورسٹیوں کو ملنے والے فنڈ بھی روک دیئے گئے پہلے مر حلے میں تر قیا تی کام رک گئے دوسرے مر حلے میں ملا زمین کی پنشن اور تنخوا ہیں بند کی گئیں خیبر پختونخوا کے بڑے ہسپتالوں میں بھی توڑ پھوڑ اور جوڑ توڑ کا یہ عمل بروئے کار لا یا گیا جس کے نتیجے میں صوبے کے 3بڑے ہسپتالوں کو آج ما لی، انتظامی اور تکنیکی بحران کا سامنا ہے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ توڑ نے اور دوبارہ جوڑ نے کا درمیانی وقفہ بہت لمبا ہو گیا ہے اس وجہ سے روز نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں شاہ صا حب کہتے ہیں کہ ہماری حکومتوں کا سکہ بند جملہ ”سابقہ حکومت نے تباہ کیا“ ایسے مقا مات پر استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ آنے والی حکومت بھی سابقہ حکمرانوں کی ہو گی وہ اپنے آپ کو کس مُنہ سے بد نا م کرینگے ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے اداروں میں ڈاکٹر وں کی تعلیم و تر بیت کا بڑا ادارہ پا کستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) بھی ہے نر سوں کی تعلیم و تر بیت پر نظر رکھنے والا ادارہ پا کستان نر سنگ کونسل بھی ہے دونوں کو توڑ دیا گیا اور توڑ نے والے دوبارہ جوڑ نا بھول گئے دو بڑے ادارے تباہی سے دو چار ہوئے پا کستان تحریک انصاف کی آنے والی حکومت کے لئے دونوں اداروں کو پھر سے جو ڑ نا بڑا مسئلہ ہو گا دلچسپ بات یہ ہوگی کہ آنے والی حکومت اس تباہی کا ملبہ جا نے والی حکومت پر نہیں ڈال سکے گی کیونکہ شاعر پہلے ہی پتے کی ایک بات کہہ گیا ہے ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گا کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملا قات ہو گئی
یہ سابقہ حکومت کی خو ش قسمتی ہو گی کہ آنے والی حکومت بھی انہی کی ہو گی اس طرح آپ اسلام اباد کی سر کاری غلام گردشوں اور راہداریوں میں ایک دو دنوں کے لئے گھوم پھر کر معلومات حاصل کرینگے تو سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) پا کستان انٹر نیشنل ائیر لائنز (PIA) پا کستان سٹیل ملز اور دیگر اداروں میں ہونے والی توڑ پھوڑ کے بارے میں روح فر سا اور چشم کشا حقا ئق سامنے آئینگے، نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کا کباڑہ ہونے کی خبریں ملینگی آپ حیراں ہونگے کہ ملک کا کونسا ادارہ ہے جو ہماری دست بر د سے اب تک محفوظ رہا ہے مجھے ایک رٹائر ڈ بیو رو کریٹ اور عالمی شہرت یا فتہ دانشور عکسی مفتی کی کتاب کا غذ کا گھوڑا یا د آرہی ہے یہ ہلکی پھلکی تحریروں کا مجمو عہ ہے جس میں مصنف نے اپنے تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے مصنف لکھتے ہیں کہ ملک میں ایک نیکدل حکمران آتا ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ ملکی مفاد اور عوامی فلاح و بہبود کے چند اداروں کی داغ بیل ڈالتا ہے قا نون سازی ہو تی ہے قواعد و ضوابط بنا ئے جا تے ہیں اعلیٰ مقا صد کا تعین ہو تا ہے اور چند حکومتیں آتی جا تی ہیں کام جا ری رہتا ہے پھر یکا یک ایک حکومت آتی ہے اور پوچھتی ہے کہ تیرے منہ میں کتنے دانت ہیں؟ تم کیا کر رہے ہو؟ اورکیوں کررہے ہو؟ ان سوالات کے بعد توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو جا تا ہے بڑی محنت سے جو ادارہ بنا یا گیا تھا وہ زمین بو س ہوجا تا ہے آجکل عکسی مفتی کا یہ تجربہ ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے آزما یا جا رہا ہے بعض ادارے زمین بو س ہو چکے ہیں بعض کو توڑ نے اور گرانے کا عمل جا ری ہے سر کاری شعبے کی جا معات کا بحران اسی سلسلے کی ایک نا گزیر کڑی ہے۔