کوویڈ 19 اور کمرہء جماعت کی کہانی (ایک نظم)
کلام: صائمہ کرم علیشاہ حسین آبادی
(انسٹرکٹر، پی ڈی سی این، گلگت)
————–
آخر کیوں!
خاموشی!
کمرہء جماعت میں
تعداد کم
میرے دوست خاموش
مُجھ سے ناراض
میں اُن کے قریب جاتا ہوں
مُجھ سے فاصلہ
اُستانی بھی فاصلہ اختیار کر رہی ہے
آخر کیوں!
وہ دوست میری کاپی سے کام اُتارا کرتے
میرے کام کرنے کا سلیقہ تو بدلا نہیں
میرے ساتھ میرے ڈیسک پر بیٹھنا
میرے بہت قریب میرے کان میں کُھسر پھُسر کرنا
مُجھ سے نفرت؟
میری اُستانی بورڈ پر لکھنے نہیں دے رہی
اُستانی شاباشی کی تھپکی نہیں دے رہی
آخر کیوں!
ہمیں کھیل کُود کے لئے صحن میں نہیں
معمول کے مطابق کاپی کا جائزہ نہیں
مُجھے سکھانے، سمجھانے کمرہء جماعت کے کھلونے نہیں
اپنے کمرہء جماعت کے چیزوں کو ترتیب سے رکھنے نہیں
اپنا لنچ اکیلے کھانے کے لئے
مُجھ سے اپنا لنچ اکیلے نگلنا مُشکل ہو رہا
چند دنوں میں سکھانے کا انداز بدلا
آخر کیوں!
اس گرمی میں میرے ہاتھوں میں پلاسٹک کے دستانے
اُستانی! میرا دم گھٹتا ہے اس ماسک میں
میں بات نہیں کر پاتا
مُجھے بار بار صابن سے ہاتھ دھونے کی تلقین
میرے ہاتھ دُکھ رہے
مُجھے صابن کی خُوشبو اچھی نہیں لگتی
آخر کیوں!
دوستوں سے گلے مل کر خوشی کا اظہار کرنے سے روکنا
مُجھے سالگرہ اپنے دوستوں کے ساتھ منانے سے روکنا
اُستانی مُجھے دلاسا دینے قریب آنے سے کترا رہی
مُجھے دوستوں سے ہاتھ ملانے سے روکنا
موبائل فون جس سے دُور رکھا
آج وہی آلہ میری پڑھائی کا حصہ
آخر کیوں!
لیکن
میں معصوم اور بھولا ہوں
مُجھ سے شکوہ نہیں کرنا
کہ میں ہاتھ ملانے کی تمیز بھُولا
دوستوں سے مل بانٹ کے بیٹھنا بھُولا
چیزوں کی قدر و قیمت بھُولا
میری انکھوں کی بینایی چلی گئی
میں بگڑی اولاد بن گیا
آخر کب تک
آخر کیوں!
آخر کیوں!