باریچ جھیل – نظروں سے اوجھل قدرت کا انمول تحفہ
تحریر: از خسرو حیات کاکاخیل
ہندوکش کے پہاڑی سلسلے دیو مالائی قصوں سے بھرپور ہیں ان پہاڑی سلسلوں میں موجود ہر گاؤں قدرت کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان خوبصورت گاؤں میں ضلع غذر کا مشہور اور خوبصورت گاؤں گولاغمولی بھی ہے۔ یہ گاؤں جغرافیائی لحاظ سے خوبصورت پہاڑوں، گلیشئروں، ندی نالوں، ٹھنڈے پانی کے چشموں، سبزہ زاروں اور اسٹریم لائن دریاؤں سے مالامال ہے۔ دواہتو ٹیک یا پھنڈر کے گاؤں بریستو ٹیک سے اس کا بھرپور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ضلع غذر اپنی جھیلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے مگر غذر گولاغمولی ہی میں واقع باریچ گاؤں کی یہ چھوٹی مگر خوبصورت ترین اور شرمیلی جھیل ہر دیکھنے والے کو اپنی خوبصورتی کے جال میں پکڑ لیتی ہے۔ یہ جھیل آج تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہی ہے جس کا دیدار گاؤں کے مکینوں اور ان کے چند رشتہ داروں کے علاؤہ اور کسی نے نہیں کیا۔ وجہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس جھیل کو دنیا کی نظروں کے سامنے لانے کے لئے آج تک یہاں کے مکینوں میں سے نہ کسی نے اس کی تشہیر کی جسارت کی اور نا ہی کسی نے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو اس جانب متوجہ کیا۔
باریچ جھیل ویسے تو شاہی مال جھیل، گولاغتوری کی جھیلوں، ہندارپ اور شندور کی جھیلوں کی طرح ہر موسم میں رہنے والی جھیل نہیں مگر اس کی خوبصورتی جون کے آخر سے نومبر کے آخر تک دیدنی ہو جاتی ہے۔ خطے کی دیگر جھیلوں سے ہٹ کر اس جھیل نے ارد گرد کی ہریالی کی طرح سبز رنگ کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے۔
گلگت شہر سے 175 کلومیٹر شندور کی طرف گولاغمولی گاؤں میں واقع باریچ جھیل کیسے وجود میں آئی اس بارے میں ابھی کچھ لکھنا قبل از وقت ہوگا۔ اس جھیل کی گہرائی خاصی ہے اور مقامی لوگ جن میں اکثریت بچوں کی ہے اس میں گرمی کے موسم میں تیراکی کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چٹانوں کے نیچے سے جو چشمہ نکلتا ہے اس سے اس جھیل میں بھی گرمی کے موسم میں پانی برقرار رہتا ہے اور گاؤں کے مکینوں کے پینے کے لئے بھی کافی سے زیادہ پانی یہاں سے نکلتا ہے۔ ہرچند گاؤں میں ہر گھر میں پانی کی نلکی لگی ہوئی ہے مگر گاؤں کے باسی اس چشمے کا پانی بھی بڑی خوشی سے پیتے ہیں۔ باریچ جھیل گولاغمولی گاؤں کے کھیتوں کو پانی فراہم کرتی ہے اور گاؤں کو تقریباً 70 فیصد پانی اسی جھیل سے مہیا ہوتا ہے تبھی تو گولاغمولی گاؤں ہریالی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
بڑی بڑی چٹانوں کے سنگم پر واقع سبز پانی کی یہ جھیل قدرت کا طلسماتی کرشمہ محسوس ہوتی ہے۔ جھیل کے ساتھ واقع چٹان بھی ایسے ساخت رکھتی ہیں کہ جن پر چڑھنا انتہائی آسان ہے، اور جب ان چٹانوں کے اوپر پہنچ کر اس جھیل پر نظر ڈالی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی جادوئی وادی کا نظارہ کر رہے ہوں۔ شام کے وقت جب پہاڑیوں کے درمیان سے جھانکتے سورج کی کرنیں جھیل کے پانی پر پڑتی ہیں تو ایک الگ ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ پوری جھیل سنہری کرنوں میں جگمگا رہی ہوتی ہے۔ انسان اس منظر میں کھو کر خود کو کسی دیومالائی داستان کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔کچھ لمحوں کے لیے اس چشمے کے کنارے منجمد ہو گیا ہو۔ پہاڑیوں کے اوپر سے سورج کی زرد کرنیں جب شفاف پانی پر پڑتی ہیں تو پانی میں مزید کشش سی پیدا ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر غروب آفتاب کا منظر مبہوت کر دینے والی خوبصورتی کا حامل ہوتا ہے۔ اور جب اس جھیل کا پانی چاندنی راتوں میں چاند کی دودھیا روشنی میں نہاتا ہے تو مزید مسحور کن ہو جاتا ہے، ایسا کہ جو دیکھنے والوں کا دل موہ لے، دھڑکنوں میں مدوجزر پیدا کر دے اورانسان چاہنے کے باوجود کشش سے نہ نکل پائے۔ ایسے درجنوں قابل دید نظارے ہیں کہ انسان گھنٹوں جھیل کنارے کسی چٹان پر بیٹھ کر خاموشی سے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتا رہے۔
ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس جھیل کو سیاحتی مرکز قرار دے کر اس میں سیاحوں کے لئے ضروری تعمیرات کر کے اس کو ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لئے متعارف کروائے۔ جھیل کے ارد گرد کی جھاڑیوں کو ختم کرکے قریبی چٹانوں پر چڑھنے کے کیے راستے بنائے جا سکتے ہیں۔ جھیل کے گرد حفاظتی باڑ لگا کر اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں انفارمیشن سنٹر قائم کر کے نئے آنے والے سیاحوں کی معلومات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اور سیاحوں کے کھانے پینے کے لئے فوڈ اسٹالز مقامی لوگ ہی لگا سکتے ہیں جس سے ان کے ذریعہ معاش میں بھی اضافہ ہوگا۔
انتظامیہ اگر مخلصانہ رویہ اختیار کرے تو اس کو لوگوں کے لئے معیاری تفریح گاہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہم قدرت کے اس انمول تحفے کی حفاظت بھی کر سکتے ہیں۔