بہتر سالہ محرومیوں کے بدلے عبوری صوبہ
تحریر :حیدر سلطان ایڈوکیٹ
بادشاہ سلامت انتہائی افسردہ نظر آرہے تھے ۔ ایک وزیر نے پوچھا ۔عالی جناب!!! کیا وجہ ہے کہ آپ کے چہرے پہ پریشانی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ بادشاہ سلامت نے لمبی سانس لی اور فرمانے لگے! میں پریشان اسلئے ہوں کہ میری رعایا انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی ہے ۔ ان کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ۔ غریب اتنا رکھا ہے کہ دووقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہیں۔کوئی ایسا ظلم نہیں جو میں نے ان پہ نہ ڈھایا ہومگر مجال ہےکہ کوئی شکایت لگانے آئے۔ مجھے لگتا ہے رعایا کوئی پلاننگ کرہی ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ خاموشی بغاوت کے طور پہ سامنے آئے اور ہماری سلطنت کا بیڑہ غرق ہوجائے ۔ وزیر موصوف فرمانے لگے ۔ عالی جناب!! آپ یہ چاہتے ہیں کہ رعایا آپ کے پاس شکایت کنندہ بن کر آتی رہے اور آپ کو ان کے حالات کا پتہ ہو۔ جی بلکل ۔ بادشاہ صاحب نے جواب دیا ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ مجھے بس تین دنوں کا وقت دیں میں آپ کی پریشانی کا حل نکال سکوں ۔ بادشاہ سلامت نے وقت دیا اور ساتھ میں ایسا کر سکنے پہ انعام کا بھی اعلان کیا ۔ اگلے دن وزیر موصوف نے رعایا کی مصروفیات کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ رعایا کھیتی باڈی کی غرض سے صبح گھر سے نکلتی ہے اور شام کو واپس گھر آکر آرام فرماتی ہے یوں شکوہ شکایات کیلئے نہ تو کسی کے پاس وقت ہے نہ ہی ہمت ۔ ایسے میں وزیر موصوف نے فیصلہ کیا کہ رعایا جس پل سے گزر کر کھیتی باڈی کرنے دوسرے علاقے میں جاتی ہے وہاں پہ ایک کوڑے مارنے والے کو رکھا جائے اور ہر گزرنے والے کو روزانہ بیس بیس کوڑے لگائے جائیں تاکہ درد کی شدت سے لوگ جوق در جوق بادشاہ سلامت کے دربار میں شکایات لیکر آجائیں ۔
اگلے دن سے ایک بندہ کوڑے مارنے کو ڈیوٹی پہ مامور کیا گیا۔ رعایا لائن پہ کھڑی ہوکر کوڑے کھاکھا کر پل پار کرتی گئی ۔ سلسلہ تین دنوں تک جاری رہا اور چوتھے روز رعایا کا ایک نمائندہ وفد دربار میں سر جھکائے حاضر ہوا ۔ وزیر موصوف کے چہرے پہ کامیابی کی خوشی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ بادشاہ سلامت بھی انتہائی مطمئن انداز میں پوچھنے لگے تشریف آوری کی کوئی خاص وجہ؟؟ وفد میں سے ایک شخص نے جواب دیا عالی جناب!!!!
فلاں پل سے گزرتے وقت روزانہ صبح ایک بندہ آپ کے حکم سے ہمیں بیس بیس کوڑے مارتا ہے ۔ ہمیں کوڑے مارنے پہ کوئی اعتراض نہیں۔ عالی جناب چاہیں تو بیس کی جگہ تیس تیس کوڑوں کا حکم صادر فرمائیں ۔ مگر ہماری تعداد بہت زیادہ ہے اور کوڑے مارنے کی ڈیوٹی صرف ایک بندے کے سپرد ہے۔یوں ہمارا سارا وقت لائن میں کھڑے رہ کر گزر جاتا ہے آپ سے گزارش ہے کہ کوڑے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ فرمادیں تاکہ ہم بروقت کھیتی باڈی کے مقام تک پہنچ سکیں۔
الحاق کے بعد ستر سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا۔ مملکت پاکستان کی مجبوریوں اور خطہ بے آئین کی محرومیوں میں روز بروز اظافہ ہوتا گیا۔ کبھی گلگت بلتستان کو مملکت پاکستان کا اٹوٹ انگ تو کبھی گلگت بلتستان کو ہی اصل پاکستان کہا گیا۔ اس طرز کے نعرے مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے دہرائے گئے۔ گلگت بلتستان کی عوام کے پاس ان کھوکھلے نعروں اور وعدوں پہ گزارہ کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ اسلئے بھی نہیں تھا کہ یہاں کی عوام امن پسند ہونے کے ساتھ ساتھ منقسم بھی تھی۔ کسی قوم کو اگر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں یا تو وہ حقوق چھین کر حاصل کرے یا پھر متحد ہوکر سیاسی میدان میں اپنا لوہا منوالے۔ بدقسمتی سے باسیان گلگت بلتستان کے پاس یہ دونوں صلاحیتیں موجود نہیں ہیں۔ یہاں کی عوام اپنی سر زمین سے زیادہ دوسرے علاقوں کے ساتھ مخلص ہے۔
گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی تین سکول آف تھاٹس پہ مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک کاخیال ہے کہ گلگت بلتستان کا مستقبل کشمیر ایشو کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور مسئلہ کشمیر کو حل کئے بناء گلگت بلتستان کے حوالے سے کئے جانے والا کوئی بھی فیصلہ ناقابل قبول ہے جبکہ دوسرا سکول آف تھاٹ اس نظریے کی بلکل نفی کرتے ہوئے موقف دیتا ہے کہ گلگت بلتستان کسی ڈیل یا مزاکرات کے نتیجے میں آزاد نہیں ہوا ہے ہم نے اپنے زور بازو بغیر کسی بیرونی امداد کے آزادی حاصل کی ہے لہزا کشمیر ڈسپیوٹ سے ہمارا تعلق صرف ہمدردی کی حد تک جڑا ہوا ہے لہذا مسئلہ کشمیر کیساتھ ہمیں جوڑ کر مزید زیادتی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔یاد رہے ان دونوں نظریوں میں منطق کم اور بغض زیادہ، ہے۔ تیسرا اور آخری سٹیک ہولڈر کو ایسی چیزوں میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ یہ تماشائی کی صورت اختیار کئے خاموش ہے۔مگر اب کی بار ہوائیں بتا رہی ہیں کہ تینوں سٹیک ہولڈرز کو ایک چھتری تلے جمع کروایا جارہا ہے۔ جن کے نظریات مختلف تھے وہ نظریہ ضرورت پہ اکتفاء کرتے نظر آرہے ہیں۔سادہ لوح عوام کو سیاسی معاملات میں مزہبی تڑکہ لگاکر نفرتیں پھیلانے والوں کو ایک پیچ پہ آتے ہوئے دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے ان کی ڈھوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی رہی ہیں ۔
باوثوق ذرائع فرماتے ہیں ایک با اثر شخصیت کی رسرچ کے مطابق گلگت بلتستان اور مملکت پاکستان کے بیچ ایک عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے. اور حالات بتا رہے ہیں کہ رسرچ پہ عمل درآمد کرانے کا وقت آن پہنچا ہے اور عبوری صوبے کا شوشہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ عمرانی معاہدہ کس سے اور کیسے کیا کیا جائےگا۔ سب سے آسان طریقہ یہی ہوگا کہ عمرانی معاہدہ وفاق اور گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب نمائندوں کے بیچ ہو۔ اور اس معاہدے میں گلگت بلتستان کی طرف سے وفاقی مزہبی اور قوم پرست پارٹیز کو سٹیک ہولڈرز بنایا جائے۔اس فارمولے پہ عملدرآمد اس صورت ممکن ہوگا جب امجد حسین ایڈوکیٹ، حافظ حفیظ الرحمان اور نواز خان ناجی سمیت دیگر بااثر مزہبی و سیاسی پارٹیز آنے والی اسمبلی کا حصہ ہوں۔ اس معاہدے کو بین الاقوامی سطح پہ قانونی شکل دلوانے اور پزیرائی حاصل کروانے کیلئے گلگت بلتستان میں اگلی صوبائی حکومت پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت کو بھی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر سیدجعفر شاہ صاحب کی ناگہانی موت کے بعد گلگت بلتستان کی سیاست میں ایک نہ پر ہونے والا خلاء پیدا ہوا ہے۔پی ٹی آئی جو پہلے ہی کمزور فوٹینگز پہ کھیل رہی تھی مزید مشکلات سے دو چار ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ کہ ماضی کے برعکس اس بار میڈیا سمیت عام آدمی کی زبان پہ بھی وفاقی حکومتی پارٹی کے بجائے پیپلز پارٹی کا نام اگلی حکومت بنانے کیلئے مظبوط اور فیورٹ قرار دیا جارہا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ تاریخی اپ سیٹ کہلائے گااس اپ سیٹ کے نتیجے میں وفاق اور گلگت بلتستان کے بیچ پلان کئے جانے والے عمرانی معاہدے کے ثمرات کسی حد تک گلگت بلتستان کے حق میں آنے کے امکانات روشن ہونگے۔ اس سے بھی بہترین اور مفید نتائج ممکن ہوتے اگر آنے والی اسمبلی میں اکثریت کسی وفاقی نمائندہ پارٹی کے بجائے گلگت بلتستان کی کسی لوکل پارٹی کی ہوتی۔مگر اس خواب کا ایسے حالات میں پورا ہونا فی الحال ناممکن ہے۔ لوکل پارٹیز کو صوبائی سطح پر مظبوط کرکے حقوق کیلئے جنگ لڑنا قوموں کا شیوہ ہوتا ہے اور ہم قوم کہاں۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کر رہے تھے کہ گلگت بلتستان کو پچھلے بہتر سالوں سے ہم نے لیمبو سٹیٹس میں رکھا ہوا ہے جو کہ گلگت بلتستان کی محب وطن عوام کے ساتھ زیادتی ہے ۔ فرحت اللہ بابر صاحب بھی ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ ریاست نے گلگت بلتستان کے ساتھ اتنی زیادتیاں کی ہیں جس کا عکس گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں غصے کی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔دونوں صاحبان اس بیان کی روشنی میں نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ انتہائی خوش نصیب بھی ہیں۔قابل تعریف اسلئے کہ اس دھرتی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اعتراف کسی حدتک تو کرگئے اور خوش نصیب اسلئے کہ اسطرح کا بیان دینے کے بعد بھی دونوں صاحبان محفوظ اور محب وطن ہیں ۔ اگر یہی بیان کوئی قوم پرست یا گلگت بلتستان کا کوئی عام شہری داغ دیتا تو غدار کہلاتا اور انجام تک پہنچایا جاتا۔
یکم نومبر 1947 سے اب تک ایک جانب گلگت بلتستان کی عوام تھی جو خود کو پاکستان کا حصہ کہے جارہی تھی دوسری جانب پاکستان کے حکمران تھے جو ہر دور میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بنانے سے صاف انکار کررہے تھے۔ اب کی بار بہت کچھ عجیب دیکھنے کو مل رہا ہے۔الحاق کیلئے نہ کوئی تحریک چلی ہے نہ ہی کوئی موثر جلسے جلوس ہورہےہیں پھر بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کیلئے سٹیٹ کے تمام پلرز یک جا نظر آرہے ہیں۔ انتہائی تیزی کے ساتھ ایسے سیریس ایفرڈذ کئے جارہے ہیں کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دیکھنے کو تو یہاں تک مل رہا ہے کہ اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حق میں جو مظاہرے کئے/ کروائے جارہے ہیں وہاں پہ گلگت بلتستان سے زیادہ دیگر صوبوں کے لوگ نظر ارہےہیں۔
گلگت بلتستان کی جعرافیائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کی نظریں اس علاقے پہ جمی ہوئی ہیں۔اس کی سرحدیں چین، انڈیا، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام تو نافذ کیا گیا ہے جیسا کہ یہاں کا اپنا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ ہے لیکن قانونی اعتبار سے اس علاقے کو پاکستان میں وہ آئینی حقوق حاصل نہیں جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔ چائینہ سمجھتا ہے کہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو ختم نہ کرنا اور گلگت بلتستان کی عوام کے تحفظات دور نہ کرنا سی پیک جیسے منصوبے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ کچھ دن پہلے انتہائی سنجیدہ اور قابل یقین افواہیں پھیلائی گئیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے۔ آرمی چیف صاحب نے پارلیمنٹری لیڈران کی میٹنگ بھی کال کی۔ بظاہر معاملہ انتہائی سنجیدہ اور کامل لگ رہا تھا اتنے میں خبر چلی کہ صوبے والا منصوبہ گلگت بلتستان میں ہونے والے الیکشنز کے بعد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ بعد ازاں یہ بھی پتہ چلا کہ آئینی صوبہ نہیں بلکہ آئین پاکستان کے ارٹیکل ون کے ساتھ چھیڑچھاڑ کئے بغیرعبوری صوبے کا درجہ دیا جائے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ مملکت/حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے لوگوں کی احسان مند ہو جنہوں نے نہ صرف مسلسل بہتر سالوں سے چپ کا روزہ رکھا بلکہ بنیادی و آئینی حقوق کے حصول کیلئے اقوام متحدہ و دیگر بین الاقوامی فورمز کے دروازے بھی نہیں کھٹکائے۔ اگر یہاں کے مکین چاہتے تو یہ زباں ہوکر آزاد ریاست کا نعرہ بھی بلند کرسکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا۔ شاید کہ سب یہاں کی عوام کی مملکت پاکستان کے ساتھ اندھی اور بے پناہ محبت کا نتیجہ ہے ۔ اور ایسی محبت اور عاشقی کی قدر اور زکر کون کرتا ہے جو اپنے عاشق کو در بدر نہ کروائے۔ کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ اور زیادہ میٹھا کھانے سے شگر لیول ہائی بھی ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ حالات و واقعات سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بہتر سالوں کے صابروں کو صبر کا پھل دیتے ہوئے مملکت پاکستان اس بات کا بھرپور خیال رکھنا چاہتی ہے کہ پھل میں اتنی بھی مٹھاس نہ ہوکہ 15 لاکھ کی ابادی شگر کی مریض بن بیٹھے۔ بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو آئینی نہیں عبوری صوبے کا نام دئیے جانے کا امکان ہے جو کہ حالیہ حالات میں گلگت بلتستان کی عوام عوام سے زیادہ خود مملکت پاکستان کی ضرورت ہے ۔گلگت بلتستان کی عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ عبوری صوبہ دیکر ان کہ محرومیوں کو دور کیا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ عبور ی صوبہ سی پیک منصوبے کو درپیش قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے دیا جارہا ہے وگرنہ تاریخ شاہد ہے بہترسالوں سے جتنے جھوٹے ،کھوکھلے اور منافقانہ وعدے اس ضمن میں کئے گئے ہیں اس کے بعد اب کی بار یہ نعرہ گڈریئے کا شیر آیا شیر آیا کا واویلا مچا کر بار بار گاؤں والوں کو دھوکہ دینے سے زیادہ کچھ کچھ نہیں لگتا۔یہی وجہ ہے کہ اب کی بار گلگت بلتستان سے صوبہ سمیت کسی قسم کے حقوق کیلئے کوئی تحریک نہیں چلائی جارہی اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کرائے کے لوگوں سے یہ نعرے لگوائے جارہے ہیں کیونکہ صوبہ بنائے بغیر دیگر منصوبوں کو خطرات لاحق ہیں۔
اگر حقوق ہی دینے ہیں تو سب سے پہلے حق حاکمیت دے دیں۔ حق حاکمیت کے بابت آپ کا سٹانس ہمیں معلوم ہے ۔ چلیں آپ کے بیانیے کو ہم سچ مانتے ہیں ہم فرض کرتے ہیں کہ حق حاکمیت دینے میں بین القوامی قوانین رکاوٹ ہیں تو زرا ہمیں سمجھادیں!!!!حق ملکیت دینے میں کون سی رکاوٹیں تھیں ۔ کیوں ریاستی سرپرستی میں ہماری زمینوں پہ قبضے جمائے جارہے ہیں ۔ کیا گلگت بلتستان کی عوام انڈین ایجنٹ ہے جن کی زمینیں قبضہ کر کر کے ایک دن بے دخل کرنے کی پلاننگ کی جارہی ہے۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول کو سسپنڈکرکے اکثریت کو اقلیت میں لانے کے پیچھے کون سے راز ہیں۔ بائی چانس پاکستانیوں پہ نوازشیں اور بائ چوائس پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کے پیچھے کون سے عوامل شامل ہیں۔ کسی خطے کو اپنے ملک کے ساتھ ضم کرنا ہو تو دنیا کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جنگیں لڑتی ہیں آپ ہو کہ گزشتہ بہتر سالوں سے مفت میں ملنے والی مرغی کو دال سمجھ کر منہ پھیرے بیٹھے ہو۔ آخر اتنی ناقدری کیوں اور اتنا گھمنڈ کس بات پہ ہے ۔ زرا ہمیں بھی تو بتلادو!!!! اور سچ تو یہ ہے کہ
ہمیں ریاست مخالف بنانے کیلئے آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑا مگر ہماری فراخ دلی پہ داد تو دو کہ ہم پھر بھی محب وطن ہی رہے مگر سنو ۔۔۔
اس بار ایسے نہیں چلے گا اب کی بار ہمارے دکھوں کا مداوا حق حاکمیت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ہماری محرومیوں کا اذالہ یا تو آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کی شکل میں یا پھر مکمل آئینی صوبے کے قیام میں ممکن ہے۔ سی پیک اور دیگر منصوں کو بچانے کے لئے عبوری صوبے کے نام پہ تین چار اوبزرورز کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں جگہ دینا ایک اور دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا۔ جب تک سپریم اپیلٹ کورٹ کو ختم کرکے ہماری عدالتوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے لنک نہیں کیا جاتا۔ جب تک جی بی کونسل کو معطل کرکے آئین پاکستان کے مطابق سینٹ میں دیگر صوبوں کے برابر نمائندگی نہیں دی جاتی اور جب تک میرے مستقبل کے بارے فیصلے کرنے والے صدر اور وزیر اعظم پاکستان کو منتخب کرنے کیلئے میرا ووٹ کار آمد ثابت نہیں ہوتا اس طرز کے نعرے اور وعدے میرے لئے کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔ اور ۔۔۔۔!!!
مزکورہ بالا سٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے عبوری صوبے کے نام پہ چند تبدیلیاں کرنا بادشاہ سلامت کے پاس سوالی بن کر آنے والے ڈرپوک وفد کو منظور اور آپ کی نظر میں ایک احسان تو ہوسکتا ہے مگر گلگت بلتستان کی باشعور عوام کی نظر میں آپ کا یہ اقدام بھی ایک سیاسی لولی پاپ اور بادشاہ سلامت کا رعایا کے ساتھ کئے جانے والے سلوک سے زیادہ کچھ نہیں۔