اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
صفدر علی صفدر
غذر والوں کی حالت کنویں کے مینڈک کی سی ہوگئی۔ یہاں کے باسی اپنے ضلع کے ساتھ ہونے والی کسی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو حکومت وقت کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ نہیں اگر ان ناانصافیوں کے خلاف خاموشی اختیار کرنا چاہے تو ایک طرف حکومت تو دوسری طرف اپنا ضمیر رگڑ دیتا ہے۔ چنانچہ ہمارے لوگ کنویں کے مینڈک کی مانند نہ اپنی ناانصافیوں کے خلاف بلا خوف و خطر اور مصلحت کے صحیح طرح آواز اٹھانے کی ٹھان لیتے نہ ہی حکومتی رگڑ سے بچنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔
ضلع غذر کے ساتھ ناانصافی کا سلسلہ صرف حالیہ ڈی ڈبلیو پی کی جانب سے وفاقی حکومت کو تجویز کردہ منصوبوں کی فہرست کی حد تک نہیں۔ نہ ہی یہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں ووٹ نہ دینے کے غصے کا شاخسانہ ہے۔ یہ گزشتہ پندرہ سال سے ایک روایت بن گئی جس کے تحت گلگت بلتستان میں ہر آنے والی حکومت نے اس لاوارث ضلع کو ترقی کی بجائے تنازلی کے دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
2009میں گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، غذر سے ایک تگڑا ترین وزیر، دو پارلیمانی سکریٹریز اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے منی لاڑکانہ کہلائے جانے کے باوجودضلع کے عوام کی حالت زار پر کسی کو رحم نہ آیا۔ رحم آتا بھی آخر کیوں؟ یہاں تو نوکریوں اور ٹھیکوں کی خرید وفروخت میں اوپر سے نیچے تک سب کی دسویں انگلیاں گھی اور سر کڑائی میں تھیں، جس میں امیر غریب سب منہ مانگی رقوم ہاتھ میں لیے خریداری کی لائن میں کھڑے تھے تو رحم کس پر آجاتا اور کسی کے ساتھ ناانصافی کا خیال کیونکر آجاتا۔ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اس حکومت کے دور میں وفاق سے فنڈز کی فراہمی کی بجائے جھوٹے اعلانات کی بھرمار رہی جو حکومتی مدت کے اختتام پر عوامی عدالت میں وفاق اور جی بی دونوں میں پارٹی قیادت کے لئے زلت و رسوائی کا باعث بن گئی۔
2015کے عام انتخابات کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت قائم ہوئی۔ اس مرتبہ پھر غذر سے کابینہ میں ایک وزیر اور آدھا ٹنیور گزر جانے کے بعد ایک مشیر کو بھی شامل کیا گیا۔ مگر ضلع کے ساتھ ناانصافی کی روایت بدستور جاری رہی۔ پیپلز پارٹی میں تو حکومتی فیصلوں سے لیکر نوکریوں کے دام وصولی تک سب کے سب شامل تھے۔ لیکن ن لیگ کی حکومت ایک مطلق العنان وزیراعلیٰ کی صورت میں "ون مین شو” بن کر رہ گئی۔ اس دور کے بادشاہ نما حکمران کو علاقائی سطح کے فیصلوں میں اپنی کابینہ کے ارکان سے مشاورت کی توفیق نہ ہوئی تو غذر جیسے لاوارث ضلع کی تعمیروترقی کا خیال کہا سے آجاتا۔
اس حکومت میں اگرچہ وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی میں پوری طرح فراغ دلی کا مظاہرہ کیا گیا ۔مگر علاقائی سطح پراس فنڈ کی تقسیم ، ترقیاتی منصوبوں کی نشاندھی، ٹھیکوں کی بندربانٹ اور ملازمتوں پر تقرریوں کے نام پر جو ٹیکنیکل تماشا لگا رہا اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ اس دور میں حکومت نے گوشت خود کھا کر ہڈیاں دوسروں کی طرف پھینکنے کے مصداق غذر کے لئے چند چھوٹے موٹے منصوبے تو رکھ دیئے مگر ٹھیکوں کی تقسیم اور ملازمتوں میں یہاں کے لوگوں کو دیوار سے لگا کران کا معاشی قتل کروانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔ جس کا خمیازہ حافظ حفیظ الرحمان اور ان کی ٹیم کو گزشتہ الیکشن میں عبرتناک شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
2020کے عام انتخابات کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آگئی۔ دیگر اضلاع کی طرح غذر کے ایک حلقے سے بھی پارٹی کا ایک قابل ترین امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے جبکہ ضلع کے دیگر حلقوں سے بھی پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو ٹھیک ٹھاک ووٹ پڑا مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ الیکشن کی گہما گہمی اور جشن و جلوس سے فراغت کے بعد جب حکومت سازی کا عمل شروع ہوا تو ضلع غذر حکومتی ناپسندیدگی میں پھر صف اول میں آگیا۔ غذر کے عوام انصاف کی پرچار جماعت سے مشیر، ٹیکنویٹ، خواتین کی نشست، کوآرڈینیٹر سمیت دیگر عہدوں پر پارٹی کے سنیئر رہنماؤں جن میں راجہ جہانزیب، ظفر محمد شادم خیل، راجہ میر نواز میر، نعمت شاہ، سرفراز شاہ و دیگر کو ایڈجسٹ کرانے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ مگر عین وقت پر معلوم ہوا کہ ان تمام عہدوں کی تقسیم گلگت بلتستان کے چند حلقوں میں انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے وفاقی ذمہ داران کے ساتھ بذریعہ اسٹام مکمل ہوچکی۔ ایسی صورت حال میں ہمارے محترم دوست نذیر احمد ایڈووکیٹ صاحب کے پاس نہ چاہتے ہوئے بھی ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔
گلگت بلتستان میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی جانب سے حکومت چین کی خواہش پر گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کی ٹھانی گئی۔ مگر اس بات کی کوئی وضاحت نہیں دی جارہی ہے کہ عبوری صوبے کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو دیا کیا جارہا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جس متنازعہ خطے کو عبوری صوبہ بنایا جارہا ہے تو کم از کم اس حوالے سے خطے کے حکمرانوں کو تو اعتماد میں لیا جاتا کہ عبوری آئینی صوبے کے تحت فلاں فلاں چیز دی جارہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عبوری صوبے کے معاملے میں گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت بشمول اپوزیشن کے ایک نمائندہ وفد کو پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ساتھ ایک تفصیلی نشست رکھ کر اس میں خطے کی جانب سے باضابطہ ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جاتا۔ پھر اس ڈیمانڈ پر دونوں فریقین کی رضامندی کی صورت میں اسے ایک نیا عمرانی معاہدہ بنا لیا جاتا۔ مگر افسوس کہ ہمارے حکمرانوں کو اس طرح کی کوئی ترکیب نہیں سوجھی جس کی وجہ سے وفاق اپنی مرضی و منشا کے مطابق عبوری آئینی صوبے کے ڈرامہ سیریل کے اقساط موقع کی مناسبت سے ٹیلی کاسٹ کررہا ہے اور ہم بندروں کی طرح ٹی وی اسکرین تکتے رہ جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے عبوری آئینی صوبے کے اس پیکیج میں پہلے دو سو ارب روپے دینے کا اعلان ہوا، پھر اڑھائی سو ارب اور اب دو سو ستر ارب روپے دینے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ اس مالیاتی پیکج کی رقم مختلف اقساط میں پانچ سال تک مختلف منصوبوں کی مد میں ٹرانسفر ہوتی جائیگی۔ اس سلسلے میں خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ جب تک وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے جی بی کے فنڈز آتے رہیں گے مگر دو سال بعد جب وفاق میں حکومت کسی اور جماعت کی ہوگی تو اس وقت کیا گرانٹی ہے کہ وفاق گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی پیکیج کی قسط جاری کرے؟
عبوری آئینی صوبے کے اس فنانشل پورشن کے تحت گلگت بلتستان کی ڈپارٹمنٹل ورکنگ پارٹی میں مختلف اضلاع کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی مد میں چھپن ارب سے زائد کی سکیمیں تجویز کی گئیں۔ سکیموں کی اس مجوزہ فہرست میں ضلع غذر، ہنزہ، گانچھے اور کھرمنگ کے علاوہ باقی تمام اضلاع کے لئے منصوبے تجویز کے گئے۔ ڈی ڈبلیو پی میں ان سکیموں پر گفت و شنید کرنے اور ان سکیموں کی حتمی منظوری کے لئے وفاق کو ارسال کرنے والی ٹیم میں غالباً وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، کابینہ کے ارکان، چیف سیکرٹری اور صوبائی سکریٹریز شامل ہونگے۔ ان میں شاید ضلع غذر کوئی سیاسی و انتظامی نمائندگی نہ تھی تو پھر غذر کی محرومیوں کا رونا کون روئے گا؟ مگر ہنزہ، گانچھے اور کھرمنگ کے ساتھ جو امتیازی سلوک ہوا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی کے حوالے سے جی بی ڈی ڈبلیو ڈی کا یہ کوئی پہلا اور آخری اجلاس نہیں تھا۔ ابھی آگے نئے مالی سال کا بجٹ بھی تو آرہا ہے جس میں گلگت بلتستان کے ترقیاتی بجٹ کے علاوہ وفاقی حکومت کے ماتحت پی ایس ڈی پی میں بھی منصوبے مختص کئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ امید قوی ہے کہ ضلع غذر کے تینوں عوامی نمائندے یک زبان ہوکر نئے مالی سال کے بجٹ میں اپنے ضلع کی چند چیدہ چیدہ سکیمیں رکھوانے میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ حالیہ منصوبوں کی تقسیم میں اس ضلع کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کیا جاسکے۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی