کالمز

مکھی اور مکڑے کا جال

از:عزیز علی داد

گلگت بلتسان کا معاشرہ مکمل طور پر طاقت کی سخت گرفت میں آچکا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرہ ابنارمل حرکتیں کرنے لگا ہے مگر لوگ ان حرکات کو ایک نارمل عمل کے طور پر قبول کر نے لگےہیں۔ اگر آپ نے کسی بھی معاشرے کی ذہنی کیفیت کو جانچنا ہے تو لازمی نہیں  کہ آپ پاگلوں یا ابنارمل بندوں کو تلاش کریں۔ معاشرے کی ابنارمل ذہنی حالت کو دیکھنے کے لئے آپ کو نارمل بندوں کی نارمل حرکتیں دیکھنی ہوگی۔

طاقت کی سحر میں مبتلا اس معاشرے نے ابنارمل صورتحال کو نارملائز کردیا ہے۔ اس ابنارمل نارملٹی کے مظاہر ہمیں ہر روز دیکھنے کوملتے ہیں۔

ایک ہفتے پہلے پولیس والے گلگت شہر میں ناکے لگا کر سخت چیکگنگ کررہے تھے۔ میں قریب ایک دکان میں بیٹھا نظارہ کررہا تھا۔ ایک گھنٹے کے دوران انتہائی دلچسپ مشاہدات دیکھنے کو ملے۔ ہوا یوں کہ وہاں ایک سیکریٹری کی گاڑی آئی تو ڈرائیور نے پولیس اہلکار کو کہا جانتے نہیں ہو سیکریٹری صاحب کی گاڑی ہے تمہاری جرات کیسے ہوئی گاڑی روکنے کی۔ پولیس والے نے اسے جانے دیا۔ پھر ایک جج صاحب آئے۔ اگلی سیٹ پر موجود گارڈ چیخ کر بولا جانتے نہیں ہو یہ جج صاحب کی گاڑی ہے۔ پولیس والے نے عزت سے جانے دیا۔ پھر ایک گاڑی روکی گئی۔ گاڑی والے سے اس کی شناخت کے متعلق پوچھا گیا اور سوال کیا کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں؟ ڈرائیور کی سیٹ پر موجود شخص نے بھاری بھر کم آواز اور تحکمانہ انداز میں کہا کہ وہ جہاں سے آئے اس کی مرضی ہے۔ چونکہ وہ ایک ریٹائرڈ کرنل ہیں اس لیے وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ اسے بھی جانے دیا گیا۔ پھر ایک گاڑی میں جس کو ایک شخص فون پربات کرتے ہوئے چلا رہا تھا کو پولیس نے روک کر پوچھا کہ وہ کون ہے اور ڈرائیونگ کرتے ہوے کیوں فون پربات کررہا ہے۔ اس شخص نے فون کو بند کئے بغیر جیب سے ایک کارڈ نکال کر دکھایا اور کہا”تم میں جرات کیسے ہیدا ہوئی مجھے روکنے کی۔ میں تمھے بے نقاب کردونگا۔ میں ایک صحافی ہوں۔” پولیس نے اسے جانے دیا۔ اتنے میں بھاری ہتھیاروں سے لیس گاڑیوں کے ایک قافلے کو روکا گیا تو شیشہ نیچی کرکے ایک مسلح شخص نے پولیس کو مخاطب ہوکر کہا "اندھے ہوگئے ہو کیا؟ تمہیں ہمارے مذہبی لیڈر کی گاڑی کا پتہ نہیں۔تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لونگا۔” پولیس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو جانے دیا۔ اتنے میں ایک نوجوان بچہ ایک مہنگی این سی پی گاڑی چلاتے ہوئے اس جگہ پہنچا۔ پولیس والے نے لائسنس مانگا تو وہ برس پڑا اور کہا”لگتا ہے تمھے نوکری سے زیادہ ڈیوٹی سے محبت ہے۔ میں تمھے نوکری سے برطرف کر وادونگا۔” پولیس والے استقفار کیا کہ وہ کون ہے۔ جواب آیا کہ وہ ایک وزیر کا بیٹا ہے۔ پولیس نے ڈر کے مارے جانے دیا۔

اس ساری صورتحال کو دیکھ کر میں سخت مایوس ہوا۔ وہاں سے میں قریبی پلازے میں موجود اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکال کے ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوا۔ میرے گھر کا راستہ پولیس کے اسی ناکے سے ہی گررتا ہے۔ میرے ذہن میں پولیس والے کےلئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے تھے کیونکہ اس کو اپنی ڈیوٹی نبھانے پر بے عزت کیا جارہا تھا۔ میرے آگے گلگت اڈے سے آنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی ایک سوزوکی تھی۔ اس سوزوکی کے ڈرائیورکو مسافروں سمیت اتارا گیا اور سب کی تلاشی لی گئی۔ جب میں قریب پہنچاتو پولیس اہلکار نے پوچھا کہ میں کون ہوں اور کہاں جارہا ہوں۔ میں نے کہا "میں ایک قانون پر عمل کرنے والا شہری ہوں اور گھر جارہا ہوں”۔ پولیس والے نے کرخت لہجے میں کہا۔ "ہم کون سا قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ زیادہ سیانے بنے کی کوشش مت کرو۔ نیچے اترو اور تلاشی دو۔” میں اترا اور تلاشی دے دی۔ پولیس نےٹیکسی ڈرائیور کو کہا کہ اس کی این سی پی گاڑی کے کاغذات جعلی ہیں اس لئے اس کی گاڑی ضبط کی جارہی ہے۔ مجھے کہا گیا کہ میں کوئی اور ٹیکسی ڈھونڈوں۔ پھر میں دوسری ٹیکسی پکڑ کر گھر روانہ ہوگیا۔

میرے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا کہ کیا فرقہ وارانہ دہشت گردی میں سوزوکی کے مسافر اور ٹیکسیوں میں چلنے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں؟ کیا بڑی گاڈی والا، مسلح افراد اور عہدے والے معصوم ہوتے ہیں؟

ہمارے ملک میں قانون کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں قوانین سے مثتثنی لوگوں کی تعداد قانوں پر عمل کرنے والوں سے تجاوزکرگئی ہے۔پچھلے ہفتوں چیف جسٹس آف پاکستان کا ٢٣ گاڑیوں کے قافلے کا ہنزہ کے پر سکون ماحول میں اپنے شور شرابے والے اسکورٹ کے ہمراہ گھومتے دیکھاتو خیال آیا کہ ان کو یہاں کس طرح کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے؟ کافی سوچ و بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مقتدر حلقوں کو سڑک پر پیدل چلنے والوں اور سوزوکیوں میں سفر کرنے والوں سے خطرہ ہوتا ہے۔ہمارے یہاں تو قانون والے ہی قانون سے آزاد ہیں۔

افلاطون نے قانون کو اس مکڑے کے جالے کی مانند قرار دیا تھا جس میں کمزور حشرات پھنس جاتے ہیں اور مضبوط اشیا اس کو چیر کر نکل جاتے ہیں۔ تب میری یہ غلط فہمی دور ہوئی کہ میں ایک شہری ہوں اور وہ بھی قانون ماننے والا۔ اب مجھے پتہ چلا کہ اس طاقت کے نظام میں اور طاقت کی سحر مبتلا معاشرے میں میری حیثیت جال میں پھنسے مکھی یا مچھر کی طرح ہے۔ پولیس والا مکڑی کا جال ہے جس کو مضبوط چیر پھاڑ کہ نکل جاتا ہے۔ اور ہمارا سارا نظام وہ مکڑا ہےجوکمزور کو جال میں پھنسانے کے لیے بنا گیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button