میں کس کے ہاتھ یہ اپنا لہو تلاش کروں
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
دنیا میں ہر سال خودکشی کے دس لاکھ سے ذائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تعداد دس ہزار سالانہ کی ہے۔ گلگت بلتستان کی آبادی پندرہ لاکھ ہے ۔ یہاں سالانہ بیس کے قریب خوکشیوں کے واقعات ہوتے ہیں۔ آبادی کے حساب سے گلگت بلتستان میں خوکشیوں کی یہ شرح دنیا کے دیگر معاشروں سے مختلف نہیں ہے لیکن آپس میں رشتداریوں میں جڑے ہوئے گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے ایسی خبریں ہمیشہ پریشان کن ہوتی ہیں۔ یہاں خودکشی کے ہر واقع کے بعد لوگ ہریشانی کا اظہار کرتے ہیں ۔ لوگ اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خودکشیوں کے اس سلسلے کو روکا جانا چاہئے۔
خودکشیوں کے ان واقعات سے متعلق فکرمند ہونا ، وجوہات معلوم کرنا اور ان کے تدارک کے لئے کام کرنا ضروری ہے مگر یہ سارا کام کسی خا ص طریقے سے ہی ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے جو سوال ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خوکشی قرار دیا جانے والا واقع واقعی خودکشی ہے یا قتل؟ اس کے بعد کئ دیگر سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں ۔ اگر یہ خودکشی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ کیا اس واقع میں اہل خانہ یا کسی اور کا کردار تو نہیں ہے؟ کیا یہ نفسیاتی بیماری کا نتیجہ ہے؟ اگر نفسیاتی یا ذہنی بیماری کا نتیجہ ہے تو وہ بیماری کب سے تھی اور کیا اس کے علاج کی کوئی کوشش کی گئ تھی؟
اگر خودکشی کا کوئی واقع درپردہ قتل ہے تو تفتیش کے ذریعہ ملزمان تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اگر وہ واقعی خودکشی ہے تو ان وجوہات کو معلوم کرنا بھی کوئی ناممکن کام نہیں ہے ۔ اس کے لئے صرف یہ ضروری ہے کہ ہر واقع پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ایسے واقعات کو مکمل روکا تو نہیں جاسکتا مگر ان کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ جس فرد میں خودکشی کے خیالات پائے جاتے ہیں وہ اگر خودکشی کے واقع سے پہلے ذہنی امراض پر کام کرنے والے ماہرین تک پہنچ جائے یا پہنچایا جائے تو اس کا علاج ممکن ہے مگر جس کی علامات ظاہر نہ ہوں اور وہ اندر سے خودکشی کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس کو روکنا ممکن اس لئے نہیں ہے کیونکہ کسی کے دل کا حال دوسرے کو نہیں معلوم ہوتا اور نہ ہی لوگ یا اہل خانہ ہر وقت ایک دوسرے کی رکھوالی کر سکتے ہیں۔ اس پرمستزاد یہ کہ خودکشی کرنے والا خفیہ طور پر اس کی مکمل تیاری کرتا ہے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ایسے میں اس کو روکنا ممکن نہیں تاہم اہل خانہ ، رشتہ داروں اور دوست احباب میں سے کوئی ایک سمجھدار فرد ہو تو وہ حرکات و سکنات سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ کوئی فرد خودکشی کے خیالات رکھتا ہے اور وہ کھبی خودکشی کر سکتا ہے۔ پھر ایسے فرد کی تکلیفات اور مشکلات پر قابو پاکر یا کونسلنگ کے ذریعہ اس کو اس صورتحال سے نکلاجاسکتاہے۔ خودکشی کو روکنا اتنا آسان ہوتا تو دنیا کے امیر ممالک یہ کام کر چکے ہوتے۔ یہ ایک پیچیدہ سماجی مسلہ ہے یہ کسی ویکسین یا دوائی سے رکنے والا نہیں ہے۔ یہ مسلہ انسانی سوچ سے تعلق رکھتا ہے اور انسانی سوچ کو سمجھنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اگر خودکشی ایک فرد کا ذاتی فیصلہ ہے تو اس میں کسی اور کو سزا نہیں دی جاسکتی تاہم اگر اس میں بیرونی محرکات مثلا تشدد، غیرت کے نام پر قتل، ذہنی اذیت دینا وغیرہ شامل ہے تو تفتیش کے ذریعہ ملزمان کی نشاندہی کر کے ان کو سزا دی جاسکتی ہے۔
گذشتہ دو دنوں میں گوجال جیسی چھوٹی آبادی میں دو خودکشیوں کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ ایک مہنے میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے بھی خودکشیوں کے کئ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
۔ خودکشی کے ہر واقعے کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہیں۔ ایسے میں ہر واقعے کی اگر پولیس اور زمہ دار اداروں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کرے تو اصل وجوہات معلوم ہوسکتی ہیں۔ ایسے واقعات میں سب سے پہلے ورثا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کرتے ہیں پھر اگر پوسٹ مارٹم ہوبھی جائے تو اگلے مرحلے میں اس کی رپورٹ اور پولیس انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے جی بی کی پچھلی حکومت نے ماہرین کی تجویز پر خودکشی کے ہر واقع کی شفاف تحقیقات لازمی قرار دیا تھا۔ جس پر اب اور آئندہ بھی سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واقع کی اصل وجوہات معلوم ہوسکیں۔ غیر جانبدار انکوائری اور پوسٹ مارٹم کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم یہ ٹیم پولیس ڈیپاٹمنٹ سے اچھی شہرت اور تفتیش کے شعبہ میں مہارت رکھنے والا آفیسر، ایک ماہر ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات، ایک قانون دان اور ایک سماجی سائنسدان پر مشتمل ہو۔ اگر خودکشی خاتون نے کی ہے تو ٹیم میں اکثریت خواتین ماہرین کی ہونی چاہئے تاکہ وہ ٹیم خودکشی کے واقع کے تمام پہلوں کا تفصیلی جائزہ لیکر اپنی رپورٹ تیار کر سکے جس کی روشنی میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ پوسٹ مارٹم کے دوران بھی غیر جانبدار اور ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم ہونی چاہئے جو کسی دباو میں آئے میں بغیر اصل حقائق سامنے لائیں اور ان ڈاکٹروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا چاہئے۔ گلگت بلتستان میں فرانزک لیب کا قیام بھی بہت ضروری ہے تاکہ موت کی وجوہات بروقت معلوم ہوسکیں۔ ان تمام مراحل سے گزر کر جو میڈیکو لیگل سرٹیفیکٹ جاری کیا جائے اسی کی بنیاد پر عدالت میں ملزمان کو سزاء دلائے جاسکے گی وگرنہ ہر قتل کو خودکشی کا نام دیکر اس پر پردہ ڈالنے کا عمل جاری رہے گا۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں خودکشی قرار دیا جانے والا ہر واقعہ خودکشی نہیں ہوتا ہے ان میں دس فیصد سے زائد واقعات غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد یا کسی اور وجہ سے قتل کے ہوتے ہیں۔ تاہم بعض خودکشیوں کے واقعات میں بیرونی وجوہات کم بلکہ اندرونی وجوہات یعنی ذہنی یا نفسیاتی امراض کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے خودکشی کے واقعات میں متاثرہ فرد کے اہل خانہ کو بھی انکوائری اور تفتیش کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کیونکہ اگر وہ خودکشی واقعی کسی ذہنی بیماری کی وجہ سے ہے تو وہ معلوم ہوسکے اور تمام شکوک و شبہات بھی دور ہوسکیں۔
میڈیا سے وابستہ حضرات بھی ایسے واقعات کو تحقیقات سے قبل خودکشی لکھنے کی بجائے پر اسرار موت لکھ دیں اور انکوائری کا مطالبہ کریں تو تحقیقات میں مدد مل سکتی ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں گوجال جیسی چھوٹی آبادی میں دو خودکشیوں کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ ایک مہنے میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے بھی خودکشیوں کے کئ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی مئ اور جون کے مہنے میں کئ خودکشیاں ہوئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اہم مسلہ پر غور و خوص اور اس کے انسداد کے لئے اپنی پالیسی مرتب کرے۔
نیز ہم بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ گلگت بلتستان میں نوجوانوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ایک تفصیلی اور اعلی معیار کی گہری تحقیق کرانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان وجوہات کے تدارک پر کام کیا جاسکے جن کی وجہ سے کئ خوبصورت نوجوان ایک خوشگوار زندگی گزارنے کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں اور خودکشی جیسے آخری اور خوفناک عمل کا مرتکب ہوتے ہیں۔