کالمز

گلگت بلتستان: عبوری صوبہ کی کہانی، فروغ نسیم کی زبانی

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گذشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے لئے ایک مجوزہ قانونی ڈرافٹ بنانے کا انکشاف کیا اور انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے لئے ایک ڈرافٹ وزیر اعظم آفس میں جمع کروایا ہے ساتھ ہی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو ایک بار پھر واضح کرتے ہوئے اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ گلگت بلتستان تکنیکی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے لہذا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق جو علاقہ جس ملک میں آئے وہاں اُس کی انتظامیہ چلتی ہے.

فروغ نسیم کے اس بیان پر شوشل میڈیا پر کافی ہنگامہ مچ گیا خصوصاً گلگت بلتستان کے ایسے لوگوں کو یہ بات ہصْم نہیں ہوئی جو سات دہائیوں سے خیالی لوگوں کی طرح اس پروپیگنڈے پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے آباواجداد نے حکومت پاکستان کو ایک ٹیلی گرام دے کر الحاق کیا تھا.

 لیکن اس طرح کے سادہ لوح لوگوں کو بھلا کون سمجھائے کہ بین الاقوامی قانون میں کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کے لئے ایک واضح قانونی طریقہ کار موجود ہے اور ٹیلی گرام سے الحاق نہیں ہوتا ہے نہ ہی تقسیم ہند کے قانون کے تحت گلگت بلتستان کے ان نام نہاد حکمرانوں کے پاس الحاق کا اختیار تھا جو ایک ہی وقت میں تاج برطانیہ اور مہاراجہ ہری سنگھ دونوں کے ماتحت بلکہ مہاراجہ کے بھاج گزار بھی تھے.

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1840 سے لیکر 1892 تک  گلگت بلتستان کی سھبی شاہی ریاستوں کے شکشت خوردہ حکمرانوں نے تاج برطانیہ اور مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے ہاتھوں وفاداری کا بیت لیا تھا سواۓ ریاست ہنزہ  کے میرصفدر علی خان اور یاسن کے راجہ گوہر آمان کے جنہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ بیرونی جارحیت کا بھرپور  مقابلہ کرنے کو ترجیح دی  .

 راجہ گوہر آمان ڈوگرہ افواج کا مقابلہ کرتے کرتے وفات پا گئے جبکہ صفدر علی خان نے ایک عالمی طاقت برٹش انڈیا کے ساتھ خونی جنگ کے دوران انگریزوں کے ہاتھوں بیت کرنے پر ملک چھوڑ کر چین میں پناہ لینے کو ترجیح دی اور یہی تاریخ کا تلخ سچ ہے.

دوسری طرف تاریخ کا یہ ایک المیہ ہے کہ یکم نومبر 1947 کی آزادی گلگت بلتستان کو تاحال دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے اس لئے گلگت بلتستان بین الاقوامی قانون کے تحت سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر حصوں انڈین زیر قبضہ جموں و کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کی طرح  ایک متنازع علاقہ اور تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور یہی حکومت پاکستان کا سرکاری موقف ہے جس کی توثیق  17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں کیا ہے.

  اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق الحاق کا اختیار ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے عوام کے پاس ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے استصواب رائے میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے نہ کہ کسی نام نہاد اسمبلی کے ممبران کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ کریں.

گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے والی یہ کہانی عملی طور پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم  نواز شریف دور حکومت میں سرتاج عزیز کمیٹی شفارشات سے شروع ہوکر اب تجویز فروغ نسیم تک پہنچ گئی ہے لیکن گلگت بلتستان کے منتخب  عوامی نمائندوں کو نہیں معلوم اس میں کیا لکھا گیا ہے؟ نہ ہی گلگت بلتستان اسمبلی میں اس مجوزہ قانون پر بحث کے لئے پیش کیا گیا ہے حد تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کے پاس اس مجوزہ ڈرافٹ کی کاپی تک نہیں بقول فروغ نسیم یہ ایک کانفیڈنشل کام تھا.

 اسلام کے پالسی ساز بظاہر عبوری صوبہ کی بنیاد گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ خواہش قرار دیتے ہیں لیکن یہ آدھا سچ ہے .

 عبوری صوبہ کا مطالبہ گلگت بلتستان اسمبلی کے اکثریتی نمائندوں کی زاتی خواہشات پر مبنی تو ہوسکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ مطالبہ گلگت بلتستان کے تمام عوام کا مطالبہ ہے یکسر بے بنیاد اور جھوٹا پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں چونکہ اول تو یہ سبجیکٹ گلگت بلتستان اسمبلی کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں.نہ ہی یہاں کےعوام نے اس طرح کے کام کے لیے ان اراکین اسمبلی کو ووٹ دیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں گلگت بلتستان اسمبلی کے قانون سازی کے اختیارات متعین ہیں جس میں گلگت بلتستان کے مستقبل کے فیصلے کا اختیار گلگت بلتستان اسمبلی کے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہے.

○ دوئم گلگت بلتستان اسمبلی نے عبوری صوبہ کی قرارداد میں واصغ طور پر لکھا ہے کہ گلگت بلتستان کو اس طرح عبوری صوبہ بنایا جائے جس سے اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر سے متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی موقف برقرار رہے ,اس مطالبے میں از خود تصْاد ہے

 چونکہ عبوری صوبہ کی قرارداد لکھنے والے افراد کو اگر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 122 کا علم ہوتا تو وہ اس طرح کی احمقانہ قرارداد نہ لکھتے نہ ہی پاس کرواتے چونکہ قرارداد 122کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی, آزاد کشمیر اسمبلی یا انڈین زیر کنٹرول جموں و کشمیر کی کسی بھی اسمبلی کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ خود کریں چنانچہ کوئی بھی اسمبلی اگر اس طرح کا کوئی بھی اقدام کرتی ہے تو وہ از خود کالعدم ہے اس عمل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے .

عبوری صوبہ کے بابت پاس کی گئی اس قراداد پر تجزیہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے دانشور زعغم عباس نے لکھا ہے کہ "ہمیں بار بار یہ لطیفہ سنایا جاتا ہے کہ عبوری صوبہ گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں یہ بتایا جائے کہ کونسے استصواب رائے کی بنیاد پر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ واقعی گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ہے۔ کونسا ریفرینڈم ہوا ہے جس میں جی بی کے عوام سے سوال پوچھا گیا ہو کہ آپکو "عبوری صوبہ” چاہئیے یا اپنا آئین اور اپنی خودمختار حکومت جس میں حق حاکمیت اور حق ملکیت شامل ہو.

زعغم عباس نے گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران سواۓ نواز خان ناجی کے سب پر سوال اٹھایا ہے  ” بقول عباس ” ایسے موقعوں پر کی جانے والی سہولتکاری تاریخی غلطیوں کو جنم دیتی ہے۔ ان تمام اراکین اسمبلی کو اس بات پر سوچنا چاہئیے کہ وقتی عہدوں اور حکومت کی لالچ میں کئے گئے مسلط شدہ فیصلوں کا حتمی نتیجہ تاریخ کا کوڑا دان ہے جس میں "تبدیلی”سمیت ان سب نے جانا ہے۔ جس جس نے میر جعفر اور میر صادق بننا ہے شوق سے صوبہ بنوالے لیکن عوام اور دھرتی کے ساتھ کی جانے والی غداری کو کوئی نہیں بھولے گا”۔

دوسری طرف عوامی ایکشن کمیٹی کے سابق چیئرمین مولانا سلطان ریس نے صحافی شبیر میر کو گذشتہ دنوں ایک انٹرویو دیتے ہوئے عبوری صوبہ کو رد کرتے ہوئے آزاد کشمیر طرز کا نظام  کا مطالبہ کیا ہے جبکہ گلگت بلتستان کی تمام قوم پرست و ترقی پسند جماعتوں بشمول بالاورستان نیشنل فرنٹ کے چیئرمین و رکن گلگت بلتستان اسمبلی نواز خان ناجی نے عبوری صوبہ کو رد کرتے ہوئے آزاد کشمیر طرز کے سٹ اپ کا مطالبہ کیا ہے.

عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان  کے رہنما کامریڈ بابا جان نے گزشتہ دنوں بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں عبوری صوبہ کو مسترد کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی قائم کرکے داخلی خودمختاری دینے کا مطالبہ کیا ہے.

گلگت بلتستان کے لئے تیار کیا گیا اس نئے مسودہ کی ایک اہم خصوصیت  یہ بھی  ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے والا  یہ مجوزہ قانونی ڈرافٹ ایک فرد واحد نے بنایا ہے اور اس مجوزہ  مسودہ کے بنانے  میں گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب نمائندوں کا کوئی کردار نہیں .

 چنانچہ گلگت بلتستان کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس مجوزہ قانونی مسودہ پر چہ میگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں اور مختلف طرح کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں مثلاً مورخہ سات اگست 2021 کو گلگت بلتستان ہائی بار ایسوسی ایشن نے ایک دلچسپ قرارداد پاس کیا جس وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے پیش کردہ مسودہ کے بابت بات چیت کے بعد مشترکہ طور پر مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسٹری قائم نہ کی جائے بلکہ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کا نام تبدیل کر کے اسے سپریم کورٹ آف گلگت بلتستان رکھا جائے  اور یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں دیگر صوبوں کی طرح آبادی کی تناسب کے بجاۓ قومی اسمبلی میں 8 اور سینٹ میں کل 12 نشستیں گلگت بلتستان کے لئے مختص کیا جائے.

 یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی.

اس طرح کے مطالبہ سے لگتا ہے گلگت بلتستان دنیا کا واحد ایسا صوبہ ہوگا جس کا اپنا سپریم کورٹ بھی ہوگا یعنی پاکستان کے سپریم کورٹ کا جورسڈکشن گلگت بلتستان پر لاگو نہیں ہوگا اور ساتھ ہی گلگت بلتستان کے نمائندوں کو پاکستان کے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ہوگی لیکن  بطور مبصر یا کیا وہ قانون سازی میں حصہ لینے کے اہل ہونگے؟ اس سوال کا جواب تا حال کوئی نہیں جانتا.

 دوسری طرف مقامی میڈیا چینلز کے مطابق جی بی کونسل کے انتخابات کرانے کا بھی حکومت عندیہ دے چکی ہے جبکہ کچھ لوگ گلگت بلتستان میں اصلاحات پاکستان کے قبائلی علاقوں کی طرز پر کرنے کی دلیل دیتے ہیں حالانکہ قبائلی علاقہ جات آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرح متنازعہ نہیں ہیں لہذا اسطرح کی دلیل دینا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے.

بات سیدھی ہے اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا ہی ہے تو سینٹ میں پاکستان کے دیگر چار صوبوں کے برابر نمائندگی دینی ہوگی اور یہ علاقہ براہ راست سپریم کورٹ آف پاکستان کے انڈر لانا ہوگا اور قومی اسمبلی میں آبادی کی تناسب سے نمائندگی جبکہ پاکستان کے تمام قومی اداروں میں دیگر چار صوبوں کی طرح برابر کی نمائندگی دینی ہوگی اور اس کے لئے فورا گلگت بلتستان کونسل اور سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کو ختم کرنا ہوگا اور دیگر صوبوں کی طرح سپریم کورٹ کی رجسٹری قائم کرنا پڑے گا .

 اس عمل کے لئے سب سے پہلے آئین پاکستان  کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں شامل کرنا ہوگا  لیکن اس عمل کے لئے بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے جوکہ اس وقت ناممکن نظر آتی ہے اگر یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے علاقہ کو پاکستان کے جغرافیائی حدود میں اگر عارضی طور پر بھی شامل کیا گیا تو کیا اس اقدام کو عالمی برادری تسلیم کرے  گی اور کیا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 سیکشن 4 کے زمرے میں نہیں آۓ گا ؟

کیا اقوام متحدہ کے ممبر ملک کی حیثیت سے پاکستان کی پارلیمنٹ اس طرح کی قانون سازی کرسکتی ہے؟

ان سوالات کے جواب مشکل اور پیچیدہ ہیں اس لئے ان پر بحث کرنا قبل از وقت ہے البتہ ایک نسبتاً آسان حل سرتاج عزیز کمیٹی سفارشات میں دیا گیا تھا یعنی  آرٹیکل ایک کو چھیڑے بنا  ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا نام  دیا جاسکتا ہے.

 بصورت دیگر  اس مسئلہ کا دوسرا قانونی حل یہ ہے کہ تا تصفیہ مسئلہ کشمیر  گلگت بلتستان میں  اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 80 کے تحت لوکل اتھارٹی  قائم کرکے تمام تر اختیارات مقامی حکومت کے حوالہ کیا جاسکتا ہے تاکہ آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان کا اپنا سپریم کورٹ, ہائی کورٹ , سینٹ اور قومی اسمبلی ہوگی اور اسمبلی اپنے لئے آئین بنانے کی مجاز ہوگی اور قانون سازی کے تمام اختیارات لوکل اتھارٹی کو حاصل ہونگے البتہ دفاع کرنسی اور فادرن افیرز حکومت پاکستان کے زیرنگرانی ہونگے اس لوکل اتھارٹی کی قائم ہونے کی صورت میں گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست کا قانون لاگو ہوگا اور گلگت بلتستان کے تمام تر ارضیات کے مالک یہاں کے مقامی افراد ہونگے تمام نوآبادیاتی قوانین کا خاتمہ ہوگا اور سب سے اہم گلگت بلتستان کی قومی شناخت کا مسئلہ حل ہوگا اور حکومت پاکستان کے عالمی سطح پر کئے گئے وعدوں کی پاسداری ہوگی اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط ہوگا .

لوکل اتھارٹی کی قیام کی صورت میں جعلی صوبہ کی آڑ میں زاتی فوائد لینے کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگا اور ریاست اور عوام کے درمیان تیزی سے بڑھتی دوریاں بروقت ختم ہونگی اور سب سے بڑھ کر اس نظام کو بین الاقوامی برادری تسلیم کرۓ گی اور گلگت بلتستان میں زیر تعمیر  تمام تر میگا ترقیاتی منصوبوں کو انٹرنیشنل لیگل Sanction ملے گی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر پر حکومت پاکستان کا اصولی موقف بھی مضبوط ہوگا اور گلگت بلتستان کے لوگوں کا ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ ہوگا.

 بصورت دیگر عبوری صوبہ کے نام پر ایک ایسا ڈرامہ ہوگا جس میں ایک طرف چند افراد بطور مبصر پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قوم کا وقت اور پیسہ  برباد کرینگے بلکہ قومی حقوق اور وسائل کا زاتی مفادات کے لئے سودا کرینگے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان تک رسائی نہ ہونے پر عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کھبی نہ ملے گی اور کونسل کے نام پر اصل اختیارات پھر وزیر اعظم پاکستان کے نام پر  اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہوگی جبکہ گلگت بلتستان میں تھوڈے بہت بچے کھچا زمین اور مدینات پر غیر مقامی سرمایہ دار طبقہ لیس کے نام پر  قبضہ کرے گا اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ وسائل بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے اور چند سالوں میں مقامی آ بادی بھی اقلیت میں بدل جائے گی جبکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملازمت کرنے کے لئے اپنے علاقے سے ہجرت کرنا ہوگا بلکہ ہجرت کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے افریقہ سے لیکر مڈل ایسٹ کا گلگت بلتستان کے تعلیم افراد مزدوروں جیسی ملازمتیں کررہے ہیں جبکہ باشندہ ریاست قانون کی معطلی کی وجہ سے گلگت بلتستان میں تمام اہم ملازمیتں اور عہدے کس کے پاس ہیں اپ سب جانتے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب عبوری صوبہ پورے پاکستان کے 22 کروڑ افراد کے لئے گلگت بلتستان میں زمین و جائداد خریدنے کا دروازہ مکمل طور پر  کھول دے گا اور چند سالوں میں مقامی ڈیموگرافی یکسر تبدیل ہونے کے واصغ امکانات موجود ہیں اور اس اقدام سے نہ صرف  پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف کمزور ہوگا بلکہ بھارت کے پانچ اگست کے اقدام کو تقویت ملےگا.

لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ  گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز پر لوکل اتھارٹی قائم کرکے داخلی خودمختاری دی جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کی ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ ہوگا اور مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف بھی برقرار رہے گا بصورت دیگر عبوری صوبہ کی چکر میں گلگت بلتستان ایک دن یا تو فلسطین بن جاۓ گا یا خیبر پختون خواہ کا ایک ڈسڑکٹ اور یہی ایک تلخ حقیقت ہے.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button