کالمز

موسمیاتی تبدیلی: گلگت  بلتستان کا نیا چیلنج

تحریر: صفدر علی صفدر

گلگت  بلتستان جہاں اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت اور د فاعی اہمیت کے سبب دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔  وہی پر یہ خطہ طر ح طرح کی قدرتی آفات کا محور بھیہے۔ ماضی میں پہاڑی اور زمینی تودوں کے سرکنے اور گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے ندی نالوں میں سیلاب اور طغیانی سے خطے میں انسانی جان ومال اور انفراسٹکچر کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا رہا۔ جیساکہ سال 2010میں ہنزہ عطاآباد کا سانحہ،2012میں گیاری سیکٹر میں دیڑھ سو کے قریب فوجی جوانوں کے گلیشئرکی زد میں آنے سمیت دیگر واقعات گلگت  بلتستان کو ایک آفت زدہ قرار دینے کی نمایاں مثالیں ہیں۔

 قدرتی آفات کے ان واقعات کو سائنسی دنیا موسمیاتی تبدیلی یا ماحولیاتی تغیرات کے اثرات کا پیش خیمہ قرار دیتی ہے جسے سائنسی زبان میں کلائمیٹ چینج کا نام دیا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے چند واضح اثرات میں درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشئرز کا پگھلاؤ، سمندی و دریائی پانی کے بہاؤ میں اضافہ، بلاترتیب بارشیں اور برفباری، فصلوں کی پیداوار میں کمی،سیلابی ریلیاں، آندھی، طوفان،پانی کی قلت وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں کلائمیٹ چینج کا تصور خاصہ قدیم ہے مگرپاکستان سمیت بیشتر ممالک میں اس کے اثرات بیسوی صدی کے اوآخر اور اکیسوی صدی کے آغاز سے واضح ہونا شروع ہوگئے۔

کلائمیٹ چینج کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے عالمی ادارے اور ماہرین سرجوڑ کر مباحثے کررہے ہیں۔ ان مباحثوں سے اخذ شدہ معلومات کی روشنی میں وہ مقامی حکومتوں اور امدادی اداروں کو بروقت حفاظتی اقدامات  کے لئے مربوط حکمت عملی کی تلقین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بیشترممالک میں سالانہ بجٹ سے ایک معقول رقم کلائمیٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملی کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت سات ہزار گلیشئرز اور 3044گلیشیائی جھیل موجود ہیں۔ ان میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی پہاڑیوں میں 33 گلیشیائی جھیلیں ممکنہ طورپر پھٹنے کے خطرے میں ہیں جوکہ مقامی آبادی کے لئے بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہبن ہوسکتی ہیں۔  ان خطرات کے پیش نظر اقوام متحدہ کا زیلی ادارے یواین ڈی پی پاکستان کے شمالی علاقوں بشمول گلگت  بلتستان میں حفاظتی اقدامات کے لئے گزشتہ چند سالوں سے خاصا سرگرم ہے۔

 اس مقصد کے تحت یو این ڈی پی پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں گلاف ٹو نامی ایک منصوبے کیذریعے مقامی حکومتوں کے تعاون آفات کے خطرے سے دوچار علاقوں میں متعدد سرگرمیوں پر کام کررہاہے۔ ان علاقوں میں گلگت ڈویژن کے گلگت شہر، ہراموش،نگر میں ہسپر، ہنزہ میں ششپر، گلکن، حسینی،شمشال، غذر میں  درکوت، بدصوات، سوسٹ، دیامر میں مٹھاٹ، استور میں پریشنگ، تریشنگ،بلتستان ڈویژن میں باشو ویلی،شگر، ارندو، گانچھے میں برہ،خپلو اور گھرمنگ میں گھندوس ویلی شامل ہیں۔

گلاف ٹو پراجیکٹ کے منتظمین سرکاری ونجی اداروں کے تعاون سے ان علاقوں کے مقامی لوگوں کی آفات سے نمٹنے کے حوالے سے استعدادکار میں اضافے کی تربیت،آفت زدہ علاقوں میں قبل از آفت اطلاعی آلات کی تنصیب، دریاؤں اور ندی نالوں میں حفاظتی بند کی تعمیر، شجرکاری  اور قدرتی ماحول کی افادیت کی تبلیغ وغیرہ کی سرگرمیاں منعقد کروارہے ہیں۔

علاوہ ازیں آغاخان ڈولپمنٹ نیٹ ورک کے ادارے، پاکستان ہلال احمر سمیت دیگر ادارے بھی کلائمیٹ چینج کے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے اپنے حصے کا دیا جلا رہے ہیں۔ مگر چیلنج اتنا بڑا ہے کہ اس پر بہت زیادہ سرمایہ کے ساتھ ساتھ سخت محنت اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  پاکستان میں عمران خان کی حکومت کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لئے بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً حکومتی اقدامات سے عوام کی زندگیوں میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنھبالتے ہی کلائمیٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ملک بھر میں ایک ارب پودے لگانے کے ایک بڑے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا۔

 اس منصوبے کے تحت پاکستان کا کوئی اور علاقہ سرسزوشاداب ہوا ہوگامگر بدقسمتی سے گلگت  بلتستان کے حصے میں اس منصوبے کے تحت صرف چند پرتعیش گاڑیاں ہی آگئی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر تھوڑے بہت پودے مل بھی گئے ہیں تو وہ یا تو سرکاری افسران کے منظورنظر افراد میں تقسیم کئے گئے یا ایسی جگہوں پر لگائے گئے جہاں مناسب دیکھ بال اور پانی کی قلت کے سبب یہ پودے سوکھ کر ختم ہورہے ہیں۔

اصولاً دیکھا جائے تو یہ پودے ایسے علاقوں کے لوگوں میں تقسیم کئے جانے چاہیے تھے جہاں ان کی دیکھ بال کا ذمہ مقامی لوگوں کے سپرد ہو اور حکومت مقامی لوگوں کی ممکنہ معاونت کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں کی موثر نگرانی کرتی۔ لیکن گلگت بلتستان کے بیشتر دیہی علاقوں سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ ان تک کسی نے کوئی ایک پودہ بھی نہیں پہنچایا ہے۔چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان میں بلین ٹری سونامی کا یہ منصوبہ مکمل طورپر ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔

 مگر بات یہ بھی نہیں کہ کلائمیٹ چینج کے اس چیلنج سے صرف حکومت ہی نے نمٹنا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے کسی بھی ممکنہ اثر کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ بھی حکومت  یا امدادی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ گلگت بلتستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے شعبے میں کام کرتے ہوئے مجھے ذاتی طورپر یہ تجربہ رہا ہے کہ یہاں کے لوگ قدرتی آفت سے ہونے والی تباہی کا ذمہ دار حکومت اور امدادی اداروں کو ہی قرار دیتے ہیں۔ اگر کسی آفت کی صورت میں عوام کا تھوڑا کچھ نقصان بھی ہوا ہے تو وہ اس کا کئی گنا زیادہ نقصان بیان کرکے تھوک میں امداد کی امید لگائے پھرتے ہیں۔

 اس روایت کے تدارک کے لئے یو این ڈی پی کے گلاف ٹو اور پاکستان ہلال احمر کی مقامی لوگوں میں شعورو آگاہی پیدا کرنے کی سرگرمیاں کارآمد ثابت ہورہی ہیں۔ چنانچہ گلگت بلتستان کے عوام کو بحیثیت قوم کلائمیٹ چینج کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے موسیماتی تبدیلی کے اثرات سے پیدا ہونے والی آفات سے نمٹنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ آفات کے خطرات میں کمی لانے میں مدد مل سکیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button