موجودہ حکومت میڈیا سے کیوں خوف زدہ ہے؟
کالم۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
پی ایف یو جے اور صحافتی تنظیموں کے سربراہان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سالوں میں بارہ ہزار سے زائد میڈیا ورکرز بے روزگار ہوگئے ہیں جو کہ میڈیا ہاوسسز سے فارغ کئے گئے ہیں جبکہ ساٹھ سے زائد صحافیوں پر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بنائے گئے ہیں۔ میڈیا ہاوسسز نے حکومت کے دباو میں آکر ہزاروں میڈیا ورکرز کو بے روزگار کرنے کے علاوہ دیگر ورکرز کی تنخواہوں میں بھی کٹ لگا دی ہے۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے میڈیا پر جو قدغنیں لگائی گئ ہیں اس کی مثال بد ترین ڈیکٹیٹر شپ میں بھی نہیں ملتی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ دنیا کے کسی بھی غیر جمہوری حکمران نے کھبی بھی آزاد میڈیا کی حمایت نہیں کی ہے۔ تاریخ میں ہزاروں صحافی جابر حکمرانوں کے مظالم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اب بھی دنیا بھر میں سالانہ درجنوں صحافی قتل ہوتے ہیں، سینکڑوں صحافی تشدد، جعلی مقدمات اور دھمکیوں کا سامنا کرتے یا ملازمتوں سے فارغ کئے جاتے ہیں۔ صحافیوں کے لئے دنیا کے کئ ممالک انتہائی خطرناک تصور ہوتے ہیں۔ جہاں جہاں ڈکٹیٹرشپ یا نام نہاد جمہوریت ہے وہاں صحافی قدغنوں کا سامنا کرتے ہیں۔ کسی ملک میں جمہوریت کتنی رائج ہے اس کا اندازہ میڈیا کی آزادی سے لگایا جاسکتا ہے۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھے اس وقت میڈیا کی آزادی کے علمبردار تھے۔ ڈی چوک کے اپنے دھرنے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جب اقتدار میں آئینگے تو میڈیا کی آزادی کو حقیقی معنوں میں یقینی بنائینگے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے میڈیا پر سخت تنقید شروع کردی ۔ اب تو صورتحال اس حد تک پہنچ گئ ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت قوانین زیر غور ہیں۔ ان قوانین کے نفاذ سے پہلے ہی ملک بھر میں میڈیا کا گھیرا بہت تنگ کیا گیا ہے۔ جب یہ قوانین مکمل نافذ ہونگے تو میڈیا کی آزادی سے متعلق صورتحال تشویشناک شکل اختیار کر ے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان بھر کی صحافتی تنظیموں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ کئ مہنوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ آنے والے دنوں میں صحافتی تنظیموں نے ملک گیر احتجاج اور لانگ مارچ کا بھی اعلان کیا ہے۔ میڈیا اور وکلاء سول سوسائٹی کا جاندار، متحرک اور بااثر طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسیات میں یہ پریشر گروپس بھی کہلاتے ہیں۔ میڈیا کے ساتھ چھیڑ خانی کا انجام کیا ہوگا اس پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بے روزگاری اور دیگر کئ مسائل نے عوام کے دلوں میں حکومت مخالف ایسے جذبات پیدا کئے ہیں جو کھبی بھی لاوا بن کر پھٹ سکتے ہیں۔
پاکستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو حکومت کو دباو میں رکھنے کے لئے میڈیا ان کو اچھا لگتا ہے۔ تب وہ میڈیا کی آزادی کے گن گاتے ہیں لیکن یہی لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو میڈیا کی آزادی ان کو پسند نہیں ہوتی کیونکہ سیاستدان جو وعدے وعید کر کے اقتدار میں آتے ہیں میڈیا ان کو وہ وعدے یاد دلاتا ہے اور حکومت کی غلطیاں اجا گر کرتا رہتا ہے۔ میڈیا نہ صرف حکومتی پالیسیوں اور کمزوریوں پر تنقید کر تا ہے بلکہ بے آوازوں کی آواز بھی بن جاتا ہے۔ اس لئے حکمران میڈیا کو اپنا حریف سمجھنے لگتے ہیں۔
میڈیا جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جمہوریت میں عوام کی رائے مقدم ہوتی ہے۔ میڈیا عوام کی رائے کی ترجمانی کرتا اور حکومت کو اس کا چہرہ دیکھتا رہتا ہے۔ جمہوری نظام سے میڈیا کو خارج کیا جائے تو اس کا حسن باقی نہیں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے بین القوامی منشور کے آرئیکل ١٩ میڈیا کی آزادی سے متعلق ہے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل ١٩ بھی میڈیا کی آزادی کی گرنٹی دیتا ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک آزادی میڈیا حکومت اور حکمرانوں کے احتساب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر میڈیا آزاد نہیں ہوگا تو حکومت شتر بے مہار کی مانند بے لگام ہوجائے گی جو کہ جمہوریت کی اصل روح کے منافی ہے۔
میڈیا کو کنٹرول کرنے کی خواہش دراصل غیر جمہوری رویہ کی عکاسی کرتی ہے۔ جمہوری حکمران آزاد میڈیا کو اپنے لئے غنیمت سمجھتے ہیں کیونک میڈیا ان کو عوام کی رائے اور جذبات سے آگاہ رکھتا اور ان کو اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے۔
جہاں تک میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کی بات ہے اس بات کا ادراک سب سے زیادہ صحافتی تنظیموں کو ہی ہے۔ صحافتی تنظیموں نے اس ضمن میں کئ بار ضابطہ اخلاق تیار کیا اور اس پر عملدرآمد کی کوششیں بھی کی ہیں۔ اس دفعہ بھی صحافتی تنظیموں نے کہا ہے کہ وہ میڈیا ورکرز کے تحفظ اور اجرت سے متعلق قوانین کے حق میں ہیں لیکن میڈیا کو کنٹرول کرنے کی حکومتی کوشش کامیاب ہونے نہیں دی جائے گی۔
موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے تو یہ کام صحافتی تنظیموں کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ صحافتی تنظیمیں جمہوری طریقہ سے ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر بہتر انداز میں عملدرآمد کرانے کی سکت رکھتی ہیں۔ کیونکہ جو ضابطہ اخلاق صحافتی تنظیمیں تیار کرینگی اس میں صحافیوں کی شراکت داری ہوگی اور وہ اس کو اپنانے میں دقت محسوس نہیں کرینگے۔ دنیا بھر میں یہ کام صحافتی تنظیمیں ہی سر انجام دیتی ہیں۔ اس کےبرعکس اگر یہ کام حکومتیں کرنے لگیں گی تو وہ ڈکٹیٹر شپ کے زمرے میں آئیگا۔ جو کہ جمہوریت ، آزادی اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔