کالمز

ناقص اشیاء خوردو نوش ، وبال جان 

تحریر : ثمر خان ثمر
موت کا ایک دن معین ہے ، وقت مقررہ پر ہر ذی روح کو یہ پیالہ چکھنا ہی ہے۔ اسے انکار اور فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں امراض قلب اور امراض معدہ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں یہ مسئلہ زور پکڑ رہا ہے ۔ گلگت بلتستان کی اگر بات کی جائے تو ضلع دیامیر زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ یہ بیماری کئی افراد کو آناًفاناً نگل چکی ہے۔ جس تیزی سے بیماری نمو پا رہی ہے اس نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ وجوہات کا کھوج لگانا اور سدباب کے طریقے ڈھونڈ نکالنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وہ کون سے عوامل ، کون سی وجوہات ہیں جو اس مہلک مرض کا سبب بن رہی ہیں؟ اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور بیٹھ کر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ جو کام عوام کی دسترس میں ہے وہ عوام سرانجام دے اور جو حکومتی اختیار میں ہے وہ حکومت سرانجام دے۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں  ناقص اشیاء خورد نوش بنیادی سبب ہے۔ امراض قلب سے متعلق عام طور پر مشہور ہے کہ فقدان کسرت اور تن آسانی اس کی بنیادی وجہ ہے ، ہو سکتا ہے یہ بات اپنی جگہ درست ہو مگر جب اپنے علاقے میں لوگوں کو اس مرض کا شکار ہو کر راہی ملک عدم ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس کی وجہ کوئی اور لگتی ہے۔ ان علاقوں میں لوگ جفاکش اور محنت کش ہیں۔ کسرت ان کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہے ، تن آسانی سے اکثر لوگ انجان ہیں۔ کھیتی باڑی ، محنت مزدوری اکثر لوگوں کا ذریعہ معاش ہے یا کم از کم روزانہ چہل قدمی کا پابند تو ہر شخص ہے ہی ۔ چست ، پھرتیلے اور کسرتی بدن والے لوگوں کا یوں اس بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی کی بازی ہار دینا لمحہ فکریہ ہے۔
بوڑھی بوسیدہ مرغیاں ، سن رسیدہ بھینسیں ،ناقص بناسپتی گھی ، ناقص مکھن ، دو نمبر مشروبات ، ناقص مصالحہ جات ، ناقص چائے کی پتی، گلی سڑی سبزیاں اور پھل ، غیر معیاری پاپڑ اور بسکٹ وغیرہ اس بیماری کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک ان بیکار اور ناقص اشیاء کا وجود نہ تھا اور لوگ ان سے انجان تھے ، زندگی سکون سے کٹ رہی تھی۔ جب دیسی مرغی کی جگہ مشینی مرغی نے ، پالتو جانوروں کی جگہ پنجاب کی سن رسیدہ بھینسوں نے ، دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی نے ، اصلی کی جگہ نقلی مصالحہ جات نے ، دیسی سبزیوں کی جگہ بازار کی سڑی سبزیوں نے اور دیسی لسی کی جگہ دو نمبر مشروبات نے لے لی تب انسانی زندگیوں میں طرح طرح کی بیماریاں در آئیں۔ معدہ ، ہیضہ اور دل کی بیماریاں عام ہو گئیں ۔لوگ دھڑا دھڑ ان بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے۔ مجھے یاد ہے جب تک ان چیزوں کا رواج عام نہیں ہوا تھا لوگوں کی صحت قابل رشک تھی۔ یہ نت نئی اور بھانت بھانت کی بیماریاں تب نہ تھیں۔ لوگوں کا زیادہ تر انحصار دیسی کھانوں پر تھا۔ خود اگاتے تھے،  خود ہی کھاتے تھے۔ ہر شے میں سادگی تھی۔ "چھنی شاہ” (ساگ) سادہ پانی میں پکاتے، دیسی گھی ڈالتے،  مکئی کی روٹی کے ساتھ کھا لیتے تھے۔ اوپر سے دیسی لسی لطف دوبالا کردیتی۔ رفتہ رفتہ بناسپتی گھی آیا،  مصالحے آئے اور پھر بیماریوں کے در کھلتے گئے۔ مشروبات نامی زہر تو درکنار ، لوگ چائے سے نابلد تھے۔ دودھ اور لسی مرغوب مشروبات میں شمار ہوتے تھے۔
غور فرمائیے، ایک بچہ صبح تا شام کیسی کیسی مضر صحت اشیاء اپنے ننھے منے اور نوزائیدہ معدے میں اُتارتا ہے؟  ہر گلی کوچے میں کھوکھا کھول کر لوگ بچوں کا شکار کرنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی بوسیدہ اور ناقص چیزیں بیچتے ہیں کہ الحفیظ ۔ بچے تو بچے خود بڑوں کے معدے میں آگ لگا دیں۔ خدا جانے یہ چیزیں کس کس مرحلے سے گزر کر،  کس کس ناقص مواد سے وجود پاتی ہیں؟ کاروباری حضرات کو اپنے کاروبار سے مطلب ہے،  کسی کی صحت سے کیا لینا دینا؟  صحت جائے بھاڑ میں،  بس ان کے کاروبار کا پہیہ متواتر حرکت میں رہے۔ یہ ذمہ داری والدین،  باشعور افراد اور سرکار پر عائد ہوتی ہے کہ ناقص اشیاء سے معصوم بچوں اور عوام کو چھٹکارا دلائیں ۔
ایک ہی حل ہے کہ ہم ان چیزوں سے قطع تعلق کرلیں ، ان ناقص اور مضر صحت اشیاء کو اپنے گلی محلوں میں گھسنے نہ دیں ، خالص غذاؤں کا چلن عام کریں ، دو نمبری مشروبات کو ٹھوکر ماریں اور لسی کو فروغ دیں۔ وادی تھور کے ایک دورافتادہ گرمائی چراگاہ میں ہمارے میزبان نے دوران لنچ جب بوتل پیش کی تو یقین کیجیے مجھے شدید حیرت ہوئی اور میں سوچتا رہ گیا کہ کیسے یہ زہریلا مشروب یہاں تک پہنچ گیا؟ میں نے لسی کی مانگ کی تو میزبان نے ٹال مٹول سے کام لیا ، اس کی طبیعت  نے گوارا نہ کیا کہ مہمانوں کی تواضع لسی سے کی جائے ۔ لسی تو ثانوی شے ہے یہ مہمانوں کو کیونکر پیش کی جا سکتی ہے؟ یعنی شان میزبانی کے خلاف سمجھا۔ حالانکہ ان مقامات پر بکریوں کے دودھ سے جو خالص لسی نکالی جاتی ہے اس کا ایک گلاس دنیا کی تمام مشروبات کی ماں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لاشعوری طور پر ہم روزانہ چپکے چپکے بوتل نامی زہر اپنے معدے میں اتار رہے ہیں۔ ہمیں لوگوں میں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
حکام بالا سے  پرزور مطالبہ ہے کہ دکاندارروں ، مرغی فروشوں اور قصابوں کو سختی سے ہدایت کرے اور پابند بنائے تاکہ وہ عوام کو معیاری اور خالص اشیاء خورد و نوش مہیا کریں۔ ہر چیز کا نعم البدل موجود ہے۔ جب نعم البدل موجود ہے پھر چند پیسوں کی خاطر لوگوں میں موت بانٹنے کا سودا کیوں کرتے ہیں یہ لوگ؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں انتظامیہ کو دکانوں میں چند پاپڑ نظر  آتے ہیں جب جب برق گرتی ہے تو پاپڑوں پر۔ باقی کون بوسیدہ مرغی بیچ رہا ہے؟ کون غیرمعیاری مصالحوں سے لوگوں کے معدے بگاڑ رہا ہے اور کون دو نمبر مشروبات پلا پلا کر لوگوں کے معدوں میں زہر انڈیل رہا ہے؟ پرواہ ہی نہیں ۔ پڑھا لکھا طبقہ اور سوشل تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ زبردست قسم کی شعوری مہم چلائیں ، مصنوعی چیزوں کی حوصلہ شکنی اور خالص دیسی اشیاء کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ آپ لوگوں کا فرض ہے ، آپ کی ذمہ داری ہے۔ اللہﷻ نے آپ کو شعور دیا ہے اس کا بہتر استعمال کریں اور لوگوں کو تباہی کے دہانے سے نکال باہر کریں۔ اللہﷻ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button