گلگت بلتستان میں غیرقانونی سیاسی تقرریاں
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
اس وقت گلگت بلتستان کا سیاسی اور انتظامی نظام "دی گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018 ” کے تحت چل رہا ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان آئین پاکستان میں شامل نہیں ہے اس لئے مختلف وفاقی حکومتیں یہاں کا نظام چلانے کے لئے مختلف اوقات میں انتظامی آرڈرز کا اجراء کرتی رہی ہیں ۔ موجودہ آرڈر سے قبل 2009 کا آرڈر اور اس سے قبل بھی وفاق کی طرف جاری کئے گئے مختلف آرڈرز یہاں رائج رہے ہیں۔ وفاق نے یہ قرار دیا ہے کہ یہاں جو بھی امور حکومت سر انجام پائینگے وہ انہی انتظامی آرڈرز کے تحت ہونگے۔ گو کہ ان تمام آرڈرز کے اجراء میں مقامی لوگوں کی رائے شامل نہیں رہی ہے مگر پھر بھی یہاں پر حکومت کی طرف سے جو بھی سیاسی و انتظامی امور سر انجام پائینگے وہ انہی آرڈرز کے تحت چلانا لازمی قرار دیا گیا ہے جو وفاقی حکومت وقتا فوقتا یہاں کے لئے جاری کرتی ہے۔ یعنی ان آرڈرز کے تحت وجود میں آنے والی ہرحکومت پر لازم ہے کہ وہ رائج الوقت آرڈر کی پاسداری کرے۔
حالیہ دنوں جی بی حکومت کی طرف سے معاونین خصوصی ، مشیروں اور لا تعداد کوارڈنیٹرز کی تقرریوں کے بعد ہم نے بہت کوشش کی کہ موجودہ وقت یہاں رائج آرڈر 2018 میں ان تقرریوں کا کوئی قانونی جواز تلاش کریں۔
جب ہم نے چھان پھٹک کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آرڈر 2018 کا آرٹیکل 36 کا سیکشن 11 حکومت کو صرف دو مشیروں کی تقرری کی اجازت دیتا ہے اس کے علاوہ کسی کوآرڈنیٹر ، معاون خصوصی یا کسی اور عہدے کا ذکر اس آرڈر میں نہیں ہے اس لحاظ سے موجودہ تقرریوں کا سارا عمل غیر قانونی ہے۔ حالیہ جو تقرریاں کی گئ ہیں ان میں 2009 کے آرڈر کے تحت بنائے گئے رولز کے سیکشن 29 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جس میں وزیر اعلی کو صرف دو مشیروں اور دو معاونین خصوصی کی تقرری کی اجاذت تھی مگر 2018 کے آرڈر کے اجراء کے بعد 2009 کا آرڈر منسوخ ہوچکا ہے لہذا اب 2009 کے تحت کوئی بھی تقرری نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جی بی میں آرڈر 2018 چل رہا ہے جبکہ رولز آف بزنس 2009 کے چل رہے ہیں۔ 2009 کے آرڈر میں اور اس کے تحت بنے ہوئے شروع کے جو رولز ہیں ان میں بھی صرف دو مشیروں کا ذکر ہے اس کے علاوہ کسی عہدے کا ذکر نہیں ہے۔ نہیں معلوم کہ بعد میں اس میں کیا ترامیم کی گئی ہیں۔ اگر وہ ترامیم کی بھی گئ ہیں تو وہ ابھی رائج العمل کیسے ہوگئے کیونکہ اب تو 2018 کا آرڈر چل رہا ہے جس کے تحت نئے رولز بننے چاہئے۔ حالیہ تقرریوں کے نوٹیفیکیشنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک 2018 کے آرڈر کے رولز نہیں بنے ہیں۔ اس صوتحال میں قانونی پیچیدگیوں کا پیش آنا یقینی بات ہے۔
اس سارے عمل کو عدالت عالیہ یا عدالت عظمی’ میں چیلنج کیا جائے تو حکومت کو کافی سبکی ہوسکتی ہے۔ عام آدمی ان پیچیدگیوں سے واقف نہیں ہے اس لئے کاغذوں کی ہیرا پھیری سے غیر قانونی اور نقصان دہ کاموں کو فروغ دینے کا عمل جاری ہے۔ جو کہ عوام کے پیسوں کا ضیاع کے علاوہ منفی روایات کو فروغ دینے اور میرٹ کی پامالی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس حوالہ سے منتخب ممبران اسمبلی ، وزراء اور اپوزیشن کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ کم از کم ان معاملات پر آواز اٹھائے۔ حالیہ دنوں وزیر اعلی گلگت بلتستان کی طرف سے جن کی تقرریاں عمل میں لائی گئ ہیں ان مشیروں ، معاونین خصوصی، کوارڈنیٹرز، سکریٹریز، ترجمانوں کی تعداد درجن سے تجاوز کر گئ ہے۔ ان تقرریوں میں میرٹ اور کرائٹیریا کا کہیں خیال نہیں رکھا گیا ہے محض ذاتی پسند کی بنیاد پر یہ عہدے سونپے گئے ہیں اور ان عہدوں پر فائز غیر منتخب لوگوں کو مراعات اور اہم ذمہ داریاں سونپی گئ ہیں۔ ان تقرریوں کا یہ عمل ابھی جاری ہے اگر یہ عمل نہیں روکا گیا تو نہ جانے ان تقرریوں کی تعداد تک پہنچ جائے گی۔ اپوزیشن کی اس ضمن میں خاموشی معنی خیز ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن اس انتظار میں ہے کہ کل کلاں ان کی حکومت آنے کی صورت میں وہ اس غیر قانونی عمل کو دھراتے ہوئے اپنے من پسند لوگوں کو نوازے گی۔ ایسے میں سول سوسائٹی کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہ صرف اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ عدالت کے ذریعہ اس غیر قانونی عمل کو روکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ایک غریب اور وسائل سے خالی صوبے میں ایسی روایات کو فروغ دینا باعث تشویش ہے۔ جس کے خلاف آواز اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔