ایک اور ملاقات سر مستنصرحسین تارڑ کے ساتھ۔۔۔۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کو دل سے چاہوتو پوری کائنات اسے تم سے ملانے میں لگ جاتی ہے۔کچھ ایسا ہی میرا ساتھ بھی ہوتا ہے اورسر تارڑ کے معاملے میں تو ہر بار ہی ہوتا ہے۔سر سے میری عقیدت بہت پرانی ہے۔ان کے قارئین انھیں لفظوں کے جادوگر کے لقب سے نوازتے ہیں لیکن میں فخریہ طور پر یہ کہتی ہوں کہ ان کے سفرنامے نے مجھے میرے ہم سفر سے ملوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
میں کراچی کی رہنے والی ہوں اور میری شادی باہمی رضامندی سے ہنزہ کے باشندے(عرفان سخی) سے ہوئی جو تعلیم اور پھر روزگار کے لیے کراچی میں ہی رہتے ہیں لیکن بہرحال ان کا تعلق ہنزہ(پسو) سے ہے اور ان کا وہاں آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔شادی کے بعد میں بھی عرفان کے ساتھ ہنزہ گئی۔امسال ماہِ ستمبر میں پہلی بار بچوں کے ساتھ پسو جانا ہوا۔ وہاں عرفان کے بہت سے ایسے رشتے دار بھی ہیں جن کا ذکر سر تارڑ نے ”ہنزہ داستان“ میں کیا تھا۔ایسا ہی ایک کردار ”حسنات“ بھی ہیں جو رشتے میں عرفان کے دادا لگتے ہیں۔میں وہاں ان سے جب بھی ملتی ہوں وہ مجھ سے سر تارڑکی بابت ضرور دریافت کرتے ہیں۔ اس بار جب میں نے انھیں بتایا کہ میں سر تارڑ سے مل چکی ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے سر کے لیے سلام کہوایا اور مجھے تاکید کی کہ میں جب بھی ان سے ملوں سلام ضرور پہنچاؤں۔میں نے دادا حسنات سے کیا وعدہ پورا کیااور کراچی آتے ساتھ ہی مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ پر ایک تحریر پوسٹ کی۔ وہ تحریر سر تارڑ تک پہنچی اور انھوں نے بھی دادا حسنات کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا۔
میں ہنزہ گئی تھی تو نہ جانے کس امید پر سب سے مشہور سوغات وہاں کی روایتی ٹوپی اور اس کو سجانے کے لیے اس پر لگانے والا پنکھ جسے مقامی زبان میں شتی کہا جاتا ہے بھی لے آئی۔ دل میں یہ ہی خواہش تھی کہ جب بھی سر تارڑ سے ملوں گی انھیں یہ تحفتاً ضرور پیش کروں گی کہ آج ہنزہ جو ایک TOURIST DESTINATION بن چکا ہے اسے تسخیر کرنے اور لوگوں میں متعارف کروانے کا سہرہ بلاشبہ سر تارڑ کو جاتا ہے۔حالانکہ سر تارڑ سے ملنے کا قرین از قیاس کوئی امکان نہیں تھالیکن میں نے پھر بھی ہنزہ سے خالی ہاتھ جانا مناسب نہ سمجھاکہ پسو میں قدم قدم پر میرے ساتھ سر تارڑ کے الفاظ بھی تو ہم سفر تھے۔اکتوبر سے اپنی الماری کے سب سے اوپر والے خانے میں، میں نے اس ٹوپی کو سنبھال کر رکھا ہوا تھااور شاید یہ میری سچی لگن ہی تھی کہ دسمبر میں چودھویں عالمی کانفرنس کے سلسلے میں اپنے چاہنے والوں کے بے حد اصرار پر سر تارڑ نے کراچی کے لیے رختِ سفر باندھا۔
سر تارڑ کراچی آئیں اور میں نہ پہنچوں یہ تو ممکن نہیں تو جناب بارہ دسمبر کو شام پانچ بجے ہونے والے سر کے سیشن میں، میں بھی پہنچ گئی۔ادھر سب سے مزیدار بات پتہ ہے کہا ہے کہ میں جو ہمیشہ اپنی دیر کر دینے کی عادت کی وجہ سے مشہور ہوں صرف سر تارڑ سے ملنے کی خوشی میں ایک گھنٹہ پہلے ہی آرٹس کونسل میں موجود تھی۔
پروگرام کے لیے مختص جون ایلیا لان میں قدم رکھتے ہی میری متلاشی نظریں سر تارڑ کو ڈھونڈ رہی تھیں اور وہ مجھے ایک کونے میں بیٹھے نظر آ ہی گئے۔میں بلا توقف سر کی جانب بڑھی اور آتے ساتھ ہی سر کے سامنے دو زانو بیٹھ گئی۔ لیکن چونکہ اس وقت لان میں ایک سیشن چل رہا تھا اس لیے سر تک میری آواز پہنچ نہ پا رہی تھی۔ میں نے سر کو تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور برابر بیٹھ گئی۔لوگ آتے رہے اور سر تارڑ کے ساتھ تصاویر بنواتے رہے۔لیکن ابھی پھر بھی سر کے آس پاس رش قدرے کم تھااور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے سر سے اجازت لینے کے بعد ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔
وہ کہتے ہیں ناں کہ جب ایک خواہش پوری ہو جائے تو متعدد نئی خواہشیں سر اٹھانے لگتی ہیں تواسی بات کے پیشِ نظر میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں سر کے لیے لائی سوغات بھی ابھی سر کو پیش کر دوں۔ تو جناب میں پھر ڈرتے ڈرتے سر کی جانب بڑھی اور دست بستہ ان سے گزارش کی کہ میرے ہاتھ میں موجوداس تحفے کو شرفِ قبولیت بخش دیں۔میری بات سن کر سر نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا کہ:
”ارے اس کی کیا ضرورت تھی“
جس کے جواب میں، میں نے سر سے کہا کہ یہ آپ کا حق بنتا ہے کہ ہنزہ کی سوغات سب سے پہلے آپ کے سامنے پیش کی جائے۔
شاید اس وقت میری قسمت زوروں پر تھی کہ سر نے نہ صرف میرا تحفہ قبول کیا بلکہ مجھ سے کہا کہ میں خود انھیں یہ کیپ پہناؤں (کیونکہ خواہش تو میری بھی یہ ہی تھی لیکن وہ ہی سر سے لازم احترام اور ڈر کی وجہ سے میں خود یہ نہیں کہہ سکی حالانکہ میرا دل چیخ چیخ کر اسی خواہش کا اظہار کر رہا تھا) اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میرے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی تھی۔میری خوش بختی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب سرنے اپنے برابر میں براجمان سفیر اعوان صاحب جو کہ sorrows of saraswati کے ترجمہ نگار ہیں انھیں اپنا موبائل دیتے ہوئے یہ کہا کہ وہ سر تارڑ کے موبائل سے بھی ہماری تصاویر لیں۔
آپ سوچیں میری اس وقت کیا حالت ہو رہی ہوگی۔یقین مانیں میرا دل اس وقت میرے کانوں میں دھڑک رہا تھا۔سر کے برابر میں کھڑے ہو کر انھیں اپنے ہاتھوں سے وہ کیپ پہنانا میری زندگی کا سب سے یاد گار پل بن رہا تھا۔سر کو اپنا لایا تحفہ اس قدر محبت سے وصول کرتے دیکھنا میرے لیے کسی مقدس مقام کی زیارت جیسا ہی تھا۔میں نے اس پل کو اپنے کیمرے میں مقید کیا۔
اس روز میری خواہشوں کا کوئی انت نہیں تھا۔میں نے سر کی حال ہی میں شائع ہونے والی لاہور دیوانگی سر کی جانب بڑھائی جس پر سر نے اپنے دستخط کر کے اسے انمول کر دیا۔تب تک سر سفیر اعوان صاحب کو بھی یہ بات بتا چکے تھے کہ میں نے سر کا ناول پڑھ کر شادی کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سن کر سفیر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں نے سر کا کون سا ناول پڑھا تھا تب میں نے سرعت سے ہنزہ داستان کا نام لیا۔یہ سن کر سر تارڑ نے مجھ سے پوچھا۔
”تو پھر کیسا تجربہ رہا“
میں نے بلا جھجک اس بات کا اعتراف کیا کہ بہت اچھا رہا۔ میری بات سن کر سر نے ان الفاظ کا اظہار کیا کہ۔
”وہاں کے لوگ حقیقتاً بڑے دل والے ہوتے ہیں“
نئی کتابوں کی رونمائی کا سیشن ابھی چل ہی رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کیوں نہ سر سے چائے کا پوچھا جائے۔ جواب اثبات میں آیا۔میں سر کے لیے چائے لانے فوراً جانے لگی کہ یہ بھی تو ایک سعادت ہے۔تب ازراہِ تفنن سر نے کہا کہ۔
”اچھا یعنی جب تک میں یہ ٹوپی پہنا رہوں گا تم چائے پانی پوچھتی رہوگی“
جس کے جواب میں، میں نے پوری تیقن سے کہا کہ میں اس کے بغیر بھی یہ خدمت انجام دینے کو دل سے حاضر ہوں۔
تب سر نے کہا کہ وہ اندر جا کر بیٹھنا چاہ رہے ہیں۔یہ سن کر میری دلچسپی بھی اس لان سے ختم ہو گئی اور میں اٹھ کھڑی ہوئی۔لیکن پہلے میں نے سوچا کہ کیوں نہ چل کے یہ دیکھ لیا جائے کہ سر کہاں بیٹھے ہیں تاکہ انھیں ڈھونڈنے میں کہیں چائے نہ ٹھنڈی ہوجائے۔ میں اٹھ کے سر کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی کہ سامنے سے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ آتے دکھائی دیئے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سر نے انتہائی محبت سے وہ کیپ ابھی تک پہنی ہوئی ہی تھی جسے دیکھ کر احمد صاحب بھی سر کی تعریف کرنے لگے۔ تب سر نے انھیں میرے متعلق بتایا۔ جسے سن کر احمد صاحب نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی کہ جیتی رہو خوش رہو بیٹا۔
سر آڈیٹوریم ون کے سامنے موجود نشست سنبھال چکے تب میں سر کے لیے چائے لینے بھاگی۔چائے لیکر واپس آئی تو سفیر صاحب اور سر تارڑ کو چائے پیش کی۔ میرے ہاتھ سے چائے لیتے ہوئے سر نے مجھ سے پوچھا کہ:
”تمھارے کتنے بچے ہیں۔“
میں نے جواب دیا کہ ”سر دو ہیں۔“
جس پر سر برجستہ بولے کہ ”اللہ تمھیں درجن بھر بچے مزید دے۔“ سر کا جملہ سنتے ہی وہاں موجود سفیر صاحب اور میں بیک وقت قہقہے لگانے پر مجبور ہو گئے۔ جس پر میں نے سر سے کہا کہ ”سر اس کے بدلے مجھے آپ کی درجن بھر کتابیں منظور ہیں۔“
جیسے ہی سر کی چائے ختم ہوئی ویسے ہی احمد صاحب سر کو آڈیٹوریم میں لے جانے آ گئے۔ یوں میں بھی ہاتھ باندھے سر کے پیچھے پیچھے ہو لی۔اندر جا کے دیکھا تو آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک لمحے کو تو میں نے سیٹ ملنے کی امید ہی چھوڑ دی لیکن بالاخر خالی سیٹ مل ہی گئی اور یوں میں بیٹھ گئی۔
سیشن کا آغاز ہوا اور میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر سننے لگے۔ سیشن کے میزبان نے جب سر سے ان کی تحریروں کے متعلق دریافت کیا تو سر کو ایک بار پھر مجھ ناچیز کا خیال آیا(میں بتا چکی ہوں ناں کہ اس روز میری قسمت زوروں پر رہی ہوگی)۔ سر نے اسٹیج پر بھی میری شادی سے متعلق بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ ابھی ابھی مجھے درجن بھر بچوں کی دعا دے کر آئے ہیں جس پر محفل زعفران زار ہو گئی اور میں تو گویا ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔
یہاں میں ایک بار پھر اس بات کا ذکر کرنا چاہوں گی کہ سر تارڑ جو کہ اتنے بڑے مصنف ہیں جو دنیا کے ہر کونے میں جا چکے ہیں انھیں آج بھی ہنزہ اور وہاں کے لوگ نہ صرف یاد ہیں بلکہ وہ نہایت ہی محبت سے اہلیان ہنزہ اور بالخصوص پسو والوں کا ذکر کرتے ہیں۔میری دعا ہے کہ سر تارڑ کو اللہ پاک صحت والی لمبی زندگی عطا کرے تاکہ وہ ایک بار پھر ہنزہ کی وادیوں کا رخ کریں اور اس بار مجھے مہمان نوازی کا شرف بخشیں۔۔۔کاش اے کاش۔۔۔