کالمز

اسلام میں شاعری مقصد نہیں، بلکہ مقصدکے حصول کا ذریعہ ہے

از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ

جدید دَور میں فن برائے فن یا ادب برائے ادب اور فن برائے زندگی یا ادب برائے زندگی جیسی اصطلاحات یا مکالمے زیر بحث آتے رہے ہیں۔ بعض اہلِ دانش فن برائے فن یا ادب برائے ادب کی حمایت کرتے ہیں اور بعض فن برائے زندگی یا ادب برائے زندگی کے حق میں ہیں۔ ان مکالموں کے تاریخی اور تنقیدی پس منظر سے قطع نظر مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ فن برائے فن یا ادب برائے ادب میں حُسن، جمالیات اور داخلی جذبات بلکہ ذاتی خوشی اور مسرّت رسانی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔اس نقطہئ نظر کے علمبردارفن اور ادب میں کسی بھی قسم کی مقصدیت کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی سے لطف اندوز ہونے اورفن یا ادب سے حظّ اٹھانے کی اہمیّت ہے جس میں اخلاقیات سمیت دوسرے سماجی معاملات کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس کا مقصد شوق پورا کرنا یا محض ادب تخلیق کرنا ہے۔ جبکہ فن برائے زندگی یا ادب برائے زندگی، جسے ادب برائے مقصد کا نام بھی دیا جاتا ہے، کا کام زندگی کو دیکھنا،اس کو سمجھنا اوراس کوپرکھنا ہے۔ کیونکہ ادب کو زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا بلکہ ادب زندگی کے مقاصدکا تعیّن بھی کرتا ہے اور ان مقاصد کے حصول کی کوششِ پیہم بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب برائے زندگی کے قائل اور ادب میں مقصدیت پر یقین رکھنے والے علماء، حکماء، ادباء اور شعراء اپنی تخلیقات میں، خواہ وہ نثر میں ہوں یا نظم میں،زندگی کے گوناگون پہلؤں، جیسے سماجیات، سیاسیات، معاشیات اور دینی و روحانی معاملات کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔

چنانچہ جب اسلامی ادبیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو وہاں ادب برائے زندگی یا ادب میں مقصدیت کا عنصر غالب نظر آتاہے۔ جہاں تک ادبیات میں شاعری کے صنف کی بات ہے تو اسلام میں وہ شاعری ناپسند کی گئی جو محض دنیاوی مفادات، لغو اور فحش گوئی، سفلی جذبات کو ابھارنے اور دوسرے ادنیٰ مقاصدکے حصول کی خاطر کی گئی ہو۔ کیونکہ اس نوعیت کی شاعری کی قرآن میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ جبکہ وہ شاعری جو دینی افکار کی ترویج و اشاعت، بانیان دین کی مدح و منقبت اور زندگی کے اعلیٰ ترین مقاصد و تصورات کی وضاحت کے لئے کی جائے جائز اور مستحسن ہے اور ایسی شاعری کی قرآن میں ترغیب و تشویق دلائی گئی ہے۔ جیسا کہ سورہئ شعراء میں ذکر آیا ہے کہ: وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الغَاوُنَ۔اَلَمْ تَرَ اَنَّھُم فِیْ کُلِّ وَادٍیَّھِیْمُونَ۔ وَ اَنَّھُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفعَلُوْنَ۔ اِلَّا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّالِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللہَ کَثِیْراً۔ (۶۲/۴۲۲۔۷۲۲) ”اور شاعروں کی پیروی گمراہ کرتے ہیں کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر جنگل میں سرگرداں پھرتے ہیں اور یہ کہ وہ (منہ سے وہ کچھ) کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کیا“۔

نزولِ قرآن سے بہت پہلے یونان کے ممتاز فلسفی افلاطون نے بھی اپنی کتاب ’جمہوریت‘ میں شاعروں کے لئے کوئی جگہ نہیں رکھی تھی۔ کیونکہ ان کے نزدیک شاعری کی بنیاد جذبات اور غیر عقلی خیالات پر ہوتی ہے۔ البتہ وہ اس شاعری سمیت ہر اس فن کو جائز قرار دیتے ہیں جو فلسفے کے ماتحت ہو اور اخلاقی تعلیم دے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نیک و بد اور حق و باطل سب کو بلا امتیاز ہمارے لئے دل نشین بنا دیتا ہے، اس سے ادنیٰ جذبات کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور سیرت کی نیکی اور سادگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ البتہ وہ مشروط طور پر اس فن کو جائز قرار دیتا ہے۔ اگر یہ فلسفے کے ماتحت ہو کر چلے اور اخلاقی تربیت کے بلند مقصد کا ذریعہ بنے تو یہ درست ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جیسی الہامی کتاب اور افلاطون جیسے عقل اور فلسفے کے علمبرداروں کی کتابوں میں ادب برائے ادب کی نفی کی گئی ہے اور ادب برائے زندگی کا اثبات کیا ہے۔ اس طرح ادب برائے مقصد کے نقطہئ نظر کی توثیق ہوتی ہے۔

قرآن میں مذکور نیکو کار اور دیندار شعراء کی شعری کاوشوں کو آنحضرت محمّد ﷺنے بھی سراہا ہے اور اسے حکمت قرار دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ: ”اِنّ َ منَ الشعر حکمۃ“ یعنی بہت سے اشعار میں حکمت ہوتی ہے۔ جبکہ ایک اور حدیثِ نبوی ؐ کے مطابق، ”حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے اور جہاں سے بھی یہ ملے وہ (مومن) اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شعرکی تخلیق و تفہیم حکمت میں شامل ہے۔نیز ایک اور حدیث بھی مروی ہے جس میں رسولِ پاک ؐ نے فرمایا ہے کہ ”الشعراء تلامیذ الرحمن و قلوبھم خزائن الاسرار“ یعنی شعراء خدائے رحمن کے شاگرد ہوا کرتے ہیں اور ان کے قلوب ]خدائی[بھیدوں اور رازوں کے خزانے ہیں۔“اس میں شک نہیں کہ ایسے شعرأ کے کلام میں حقیقت کی ترجمانی ہوتی ہے اور وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو منکشف کرتے ہیں۔
قرنِ پنجم ہجری کے ممتاز شاعر اور حکیم ناصرِ خسرو (۱۸۴ھ / ۸۸۰۱ء)، جنہیں فارسی میں فلسفیانہ شاعری کے بانی قرار دیا جاتا ہے، بھی دیگر معروف مسلمان شعرأ،حکمأ اور دانشوروں کی طرح فن برائے فن یا علم برائے علم کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ علم و فن کو دین کی حقّانیت کو ثابت کرنے اور حیات و کائنات کی حقیقتوں کو اجاگر کرنے کے لئے بروئے کار لانے کے قائل ہیں۔وہ محض شاعر اور فن کار بنناہرگز پسند نہیں کرتے بلکہ اس فنِ شعر گوئی کے ذریعے طریقِ محمّدیؐ یعنی دینِ اسلام کا پرچار کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے ’دیوانِ اشعار‘ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ؎
مرمرا بر راہِ پیغمبر شناس شاعرم مشناس اگرچہ شاعرم
ترجمہ: مجھے پیغمبرِ پاک ﷺ کے طریقے پر چلنے والا سمجھ لے مجھے شاعر مت سمجھنا اگرچہ میں شاعر ہوں۔
قرونِ وسطیٰ کے ایک اورعالم اور شاعرمولانا جامی اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ؎
شاعران از بہرِ سیم و زر سخنہا گفتہ اند احمد جامیؔ غلام خاص شاہ اولیاست
ترجمہ: ]دوسرے[ شاعروں نے سونے اور چاندی کی بات کی ہے۔ احمد جامی اولیاء کے بادشاہ ]مولا علی ؑ[کے خاص غلام ہیں۔
ناصرِ خسرو یہ بھی بتاتے ہیں کہ انہیں شاعر ہونے پر فخر نہیں ہے بلکہ فخر اس پر ہے کہ وہ اس کے ذریعے دین کی تشریح و تعبیر کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ؎
شعر بخوان و فخر مداں مرمرا بہ شعر دین دان نہ شعر فخرِ من و ہم شعارِ من
ترجمہ:۔ میرا شعر پڑھ لیا کر اور شعر کہنے میں میرا فخر تصوّر نہ کر جبکہ فخر میرا دین ہے نہ کہ شعر گوئی اور نہ ہی وہ میرا شعار ہے۔
ناصرِ خسرو یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کے نزدیک شاعری کا مقصد گل و بلبل اور مئے و معشوق کے تذکرے کا بیکار مشغلہ اختیار کرنا نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد کائنات و مافیھا کی حقیقت کا ادراک کرنا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ؎
فخر چہ داری بغزلہائے خوب در صفتِ روی بُتِ سعتری
فخرِ تو آن است کہ دانی تو کیست علّتِ این گنبد ِ نیلوفری
ترجمہ:۔ان اچھی غزلوں پر کیا فخر کرتے ہوجن میں نفس پرست معشوق کی صورت کی تعریف کی گئی ہو۔ تمہارا فخر اس بات پر ہونا چاہئے کہ اس نیلے رنگ کے آسمان کا سبب کیا ہے اس کو سمجھ سکے۔

ناصرِ خسرو اور علّامہ اقبال کی طرح مولانا جلال الدّین رومی بھی شاعری کو بطور پیشہ اختیار کرنے اور اس پر فخر و مباحات کرنے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔رومی کہتے ہیں کہ انہوں نے شاعری کو اپنے اظہارِ خیال کا ذریعہ اس لئے بنایا ہے کہ ان کے مخاطبین صرف شاعری کی زبان سمجھتے ہیں۔وہ اپنی نثری تصنیف ’فیہ ما فیہ‘ میں لکھتے ہیں کہ: ”میں اس حدتک دلداری کرتا ہوں کہ وہ دوست میرے پاس آتے ہیں اس خوف سے کہ وہ ملول نہ ہوں میں شعر کہتا ہوں۔ تاکہ ان کی توجّہ لگی رہے۔ ورنہ کہاں میں کہاں شعر۔خدا کی قسم میں شعر سے بیزار ہوں۔اس سے بُری چیز میرے نزدیک کوئی نہیں۔“ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان کے اشعار درج نہیں کیے جاتے ہیں۔

جب ہم حکیم الامّت علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ علّامہ موصوف ناصرِ خسرو اور مولانا رومی کے اس نقطہئ نظر کا تتبّع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی فن برائے فن یا علم برائے علم کے نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ وہ بھی ناصرِ خسرو کی طرح محض پیشہ ور شاعر اور فن کار ہونے کے قائل نہیں ہیں اور ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کا مقصد و مدّعا بکھری ہوئی مسلم امّت کی شیرازہ بندی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ؎

نغمہ کجاو من کجا ساز و سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقہئ بے زمام را

ناصرِ خسرو کی طرح اقبال بھی نفس پرست معشوق کے بدن اور ظاہری صورت کی تعریف پر مبنی غزل و ہزل اور جنسی یاوہ گوئی، قبیح خیالات اور سفلی جذبات کو ابھارنے والی شاعری سے سخت بیزار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ناصرکی طرح انہوں نے بھی دلنواز غزلوں اور بادہ و ساغر کے ناپسندیدہ تذ کروں سے اپنے کلام کو آلودہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے کوثر و تسنیم میں دھلے ہوئے اپنے اشعار میں سیاست و سماج اوردین و روحانیت کے سنجیدہ معاملات کو زیرِ بحث لایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ؎

حدیثِ بادہ و مینا وجام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

ا سی طرح ایک اور شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ ؎

مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ بانگ صور سرافیل دلنواز نہیں

اقبال اپنے نقطہئ نظر کو ایک اور پیرائے میں بھی بیان کرتے ہیں۔وہ برِّ صغیر پاک و ہند کے اُردو شعراء کے اس رجحان کی مذمّت کرتے ہیں جس میں پاکیزہ خیالات اور اعلیٰ مقامات کی نشاندہی کے بجائے نفسانی خواہشات اور جنسی خیالات کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ؎

چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

نیز اقبال بھی ناصرِ خسرو اور رومی کی طرح خود کو شاعر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انہیں شاعر نہ کہا جائے۔ کیونکہ وہ شعر و سخن کو محض ایک ذریعہ سمجھتے ہیں کہ جس سے انسان کی اندرونی حقیقت، قلبی کیفیّت اور دین کے باطنی پہلوکو اجاگر کیا جا سکے۔وہ لکھتے ہیں کہ ؎

مرے نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم رازے درونِ میخانہ

اسی طرح اردو کے ممتاز شاعر میر تقی میرؔ (۴۲۷۱۔ ۰۱۸۱ء) کو بھی شاعر ہونے میں تأمّل تھا۔ جس طرح اقبال نے خود کو شاعر کہلوانے کے بجائے محرم رازِ درونِ خانہ کہلوانا پسند کیا ہے اسی طرح میر تقی میر ؔ نے اپنی شاعری کو اپنے دل کے درد و غم کا مجموعہ کہہ کر پکارا ہے جس سے مراد انسانی جذبات و کیفیّات اور تصوّف و عرفان کی ترجمانی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ؎

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب ہم نے دردِ دل جتنے کئے جمع تو دیوان کیا

اقبال شاعر بننے کے بجائے درویش منش صوفی اور قلندر بننا پسند کرتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ؎

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری وگر نہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!

اسی طرح علّامہ اقبال کے ایک شاگرد،رومی و اقبال کے پرستار اور مملکتِ خداداد پاکستان کے مایہئ ناز اسکالر اور مفکّر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے بھی اپنے اشعار میں فن برائے فن کی مذمّت کی ہے اور فن برائے زندگی کی اہمیّت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔وہ اپنی ایک نظم ”ایک بد سیرت شاعر سے خطاب“ میں یوں گویا ہیں ؎

فن میں ترے بہار عمل میں ہے خار زار فن میں ہے پختہ اورعمل میں ہے خام کار

کیا فن کا طرزِ زیست پہ کوئی اثر نہیں کیوں اپنی زندگانی پہ تیری نظر نہیں

اصلاحِ ذات میں بھی جگرخوں کرے توخوب مانندِ شعر اس کو بھی موزوں کرے تو خوب

کاوش ہے صبح و شام کہ فن کو سنوار لے اور اس سے خوب تر ہے کہ من کو سنوارلے

شعر و سخن کے بارے میں علّامہ اقبال مزید لکھتے ہیں کہ جس شاعری اور فن سے انسانی معاشرے میں مثبت تبدیلی نہیں آتی وہ بے کار شغل اور لاحاصل کاوش ہے۔ اور یہ کہ مثبت تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے کہ شاعر انسانی معاشرے کی صداقتوں کا بر ملا اظہار کرے۔وہ فرماتے ہیں کہ ؎

شاعرِ دل نواز بھی بات اگر کہے کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرعِ زندگی ہری

الغرض، مندرجہ بالا حقائق سے یہ حقیقت اجاگر ہوئی کہ قرآن حکیم، تعلیماتِ رسولؐ اور قدیم و جدید مسلم مفکرین، شعرا ء اور ادباء کے اشعار اور نثر پاروں میں فن برائے فن یا ادب برائے ادب کے نظریے کی نفی کی گئی ہے۔ البتہ فن برائے زندگی یا ادب برائے زندگی کی بھر پور حمایت کی گئی ہے اور ادب و شعر میں مقصدیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی ادبیات کی تاریخ میں دینی تعلیمات، اخلاقیات، سماجیات، معاشیات، سیاسیات اور عائلی مسائل سے بین الاقوامی تعلّقات تک کے تمام موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور بجا طور پر مسلمان اس ضمن میں غنی ورثے کے حامل ہیں۔

(بلاشبہ، مذکورہ مسلمان ادباء و شعراء کے گروہ میں گلگت۔ بلتستان کے معروف شاعر اور مصنٰف جناب جمشید خان دکھی صاحب بھی تھے جو اب ہم میں نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے قلمِ حقیقت رقم کے ذریعے اس علاقے میں مذہبی ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور معاشرتی ترقی کے لئے بھر پور کوششیں کیں۔)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button