مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آگئی
احمد سلیم سلیمی
موت اور زندگی کی دوڑ ازل سے جاری ہے۔اس میں جیت ہمیشہ موت کی ہوتی ہے۔زندگی جتنا بھی طویل فاصلہ طے کرے،موت سے آگے نہیں بڑ ھ سکتی۔
موت اپنے وقت پر آتی ہے۔زندگی کا کوئی وقت نہیں۔جو ہے،اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کے باوجود زندگی کے دوام پر اصرار ہے۔یہ انسان کی لاعلمی نہیں ہے،سراسر نادانی ہے۔موت کے نہایت واضح واقعات آئے روز ہمارے سامنے رونما ہونے کے باوجود ،زندگی کے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ہم انسان کتنے نادان ہیں موت کا میلہ لگا ہے پھر بھی سراب ِ زندگی کو حقیقت سمجھنے سے باز نہیں آتے۔
جمشید دکھی صاحب کی چھے دہائیوں پہ محیط زندگی ایک حقیقت بھی تھی،تماشا بھی۔ان کی موت بھی ایک اٹل سچائی۔
ان کی ساٹھ برسوں کی زندگی بھی نہیں بھول سکتے۔ان کی دس روز قبل،موت کا ایک دن بھی کبھی نہیں بھولنے والا سانحہ ہے۔
یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ ان کی موت پر بڑا دکھ ہوا ہے۔یہ دکھ جس شدت سے دل پہ ڈیرے ڈالے پڑا ہے،اس کی ٹیسیں بیان کرنا بہت ہی مشکل۔
دکھی صاحب سے بہ ظاہر میرا کوئی رشتہ نہیں تھا۔اس کے باوجود ہر رشتے کی تقدیس ان سے جڑی ہوئی تھی۔وہ میرے دوست تھے۔میرے بھائی تھے۔میرے ہم جلیس تھے۔میرے ہم سفر تھے۔میرے محسن تھے۔
ان سے بیس سال سے زیادہ کا تعلق رہا ہے۔قلم کاری کی نسبت سے قائم یہ تعلق،محبت،خلوص اور دوستی کی ایسی رفاقتوں کا نقیب رہا ہے جن کی قدر،کچھ میں ہی جانتا ہوں۔گلگت کی سڑکوں،گلیوں اور ہوٹلوں سے لے کر،گلگت سے باہر شندور سے شگر تک،دیوسائی سے نلتر تک،نگر سے دیامر تک،پنڈی اسلام آباد اور لاہور تک،ان کے ساتھ بار ہا تفریحی اور ادبی سفر نصیب ہوا۔
دکھی صاحب سے جن جن کا تعلق رہا ہے سب ہی یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ ان سے شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔میں دعویٰ ہی نہیں کرتا،ایمان سے کہتا بھی ہوں ان کی مجھ حقیر سے محبت اور شفقت بے حد تھی۔
بیس سالہ اس رفاقت کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گلگت میں موجود ہوتے ہوئے،تیسرے چوتھے روز ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوا ہو۔پہلے پہلے جب موبائل نہیں آیا تھا۔این ایل آئی مارکیٹ کے مشرقی گیٹ کے پاس سینئر صحافی اور شاعر اقبال عاصی بھائی کی دکان پہ سرشام محفل جمتی تھی۔ وہاں صحافی بھی شاعر اور ادیب بھی آتے جاتے تھے۔میں امپھری سے پیدل ہی آجاتا تھا۔ان صاحبان کی صحبت میں ایک دو گھنٹے گزار تا تھا۔اس محفل میں میرے لیے دکھی صاحب ہی محور ِ توجہ ہوتے تھے۔ان سے ملنے کی اور ان سے ہم کلام ہونے کی خواہش میرے لیے کسی سعادت کی طرح ہوتی تھی۔
بعد میں موبائل آگیا۔اب رابطہ بھی اور ملنا ملانا بھی آسان ہو گیا تھا۔ایسے میں ان کی صحبت اور محبت کے ریشمی احساس سے بھیگتا رہتا۔
ان سے پہلے میں نے جوٹیال میں مکان کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے بھی خوش خبری سنائی کہ وہ بھی جوٹیال منتقل ہورہے ہیں۔جوٹیال میں ان کا وسیع و عریض پلاٹ بہت پہلے سے موجود تھا۔جس میں شہتوت،خوبانی،انگور اور کئی طرح کے دیگر پھل دار درخت بہار دکھلا تے تھے۔کئی دفعہ ان کے ساتھ پلاٹ کے خوب صورت ماحول میں وقت گزارنے کا موقع ملا تھا۔اب جب انھوں نے جوٹیال کے اس پلاٹ میں گھر کی تعمیر کا فیصلہ کر لیا تو ظاہر بات ہے میرے لیے یہ ایک خوش کن خبر تھی۔
میرے پاس وسائل کم تھے۔کچھ دیگر وجوہات بھی تھیں کہ میرا مکان تاخیر کا شکار ہوا۔دکھی صاحب مجھ سے پہلے جوٹیال شفٹ ہوگئے۔انہی دنوں تاج صاحب بھی کشروٹ سے ہجرت کر کے،دکھی صاحب کے ہمسائے میں آباد ہو گئے۔
ان دونوں کی رفاقت کئی دہائیوں پہ محیط تھی۔وہ دوست بھی تھے،قلم بھائی بھی تھے۔رشتے دار بھی تھے۔ساتھ ہی ایک ہی علاقے میں رہنے والے تھے۔
اب پہلے سے آباد مقام سے اٹھ کر،دوسرے مقام پہ بھی قریب قریب آباد ہو گئے تھے۔ایک طرح سے قسمت نے خود ان کی رفاقت،سلامت رکھنے کا وسیلہ پیدا کیا تھا۔
دکھی صاحب ہر ملاقات میں مجھ سے گلہ کرتے۔ایک طرح سے مجھ پہ غصہ ہوتے۔”سلیمی! یہ کیا مذاق ہے۔تم نے جوٹیال میں مکان بنانا شروع کیا تو مجھے بھی حوصلہ مل گیا تھا۔اب مجھے بھجوا کے خود کیوں رکے ہوئے ہو؟اگر تمہارے ابامنع کر رہے ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔میں بات کروں گا۔“
یہ ان کی محبت تھی جو اس طرح بات کررہے تھے۔میری مان بڑھا رہے تھے ورنہ جوٹیال شفٹ ہونے کے پیچھے ان کی پوری فیملی کی خواہش اور مرضی شامل تھی۔
میں ہنس کے ٹال دیتا۔کبھی کوئی سخن گسترانہ بات کہہ کے موضوع بدل دیتا۔
”دکھی صاحب! امپھری کی گلیاں اور ان سے جڑی یادیں زنجیر بنی ہوئی ہیں۔دعا کریں یہ زنجیریں ٹوٹ جائیں۔میں جلد جوٹیال آجاؤں۔“
ایک سال بعد ہی یہ زنجیریں ٹوٹ گئیں۔میں جوٹیال شفٹ ہوگیا۔میں اللہ پاک کو حاضر جان کے کہتا ہوں یہ خبر سن کر ان کی خوشی دیدنی تھی۔بھرائے ہوئے لہجے میں انھوں نے کہا تھا۔
”سلیمی! اچھا ہوا تم آگئے۔میں اور تاج صاحب اس بھرے پُرے جوٹیال میں تنہائی کی وحشت کا شکار تھے۔چلو،ہم بزرگوں کے ساتھ ایک جوان بھی مہاجرت کے اس دکھ میں شریک ہو گیا۔“
واقعی یہ بات سب ہی جانتے ہیں جوٹیال شفٹ ہو نے کے کئی سال بعد بھی تاج صاحب اور دکھی صاحب کا یہ معمول تھا کہ صبح ہوتے ہی کشروٹ چلے جاتے تھے۔پھر شام ہوتے واپس جوٹیال آتے تھے۔ایک طرح سے وہ ناسٹیلجیا کا شکار تھے۔
دکھی صاحب اکثر ازراہ ِ تفنن بتاتے تھے ۔”کبھی کسی وجہ سے جوٹیال میں دن کا زیادہ وقت گزار لیتا ہوں تو گھر والے حیران رہ جاتے ہیں۔“
جوٹیال شفٹ ہونے سے چند مہینے قبل میں نے نئی نئی گاڑی لی تھی۔جب چلاناسیکھ گیا تو دکھی صاحب نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔فرمایا۔”سلیمی! اچھا ہوا کہ تم نے کار خریدلی ہے۔اب ذر ا گھومنے پھرنے کا شوق جی بھر کے پورا کریں گے۔“
یہ ان کی اعلا ظرفی تھی جو اس طرح کہہ رہے تھے۔کیوں کہ ان کے پاس گاڑیوں کی بھی اور احباب کی بھی کمی نہیں تھی۔
میں عاجزی سے جواب دیتا۔”زہے نصیب سر! آپ کی وجہ سے میری بھی عزت اور پہچان میں اضافہ ہوتا ہے۔جہاں بھی جاتے ہیں۔بے شمار لوگ آپ سے ملتے ہیں۔محبت سے،احترام سے پیش آتے ہیں۔اسی بہانے مفت میں مجھے بھی پروٹوکول ملتا ہے۔“
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ایسا ہی ہوتا تھا۔کسی بھی شہر میں جائیں،کسی بھی گاؤں دیہات میں جائیں۔دکھی صاحب کے چاہنے والے اور جاننے والے بے شمار ملتے تھے۔ہر ذات کے،ہر نسل کے ہر فرقے کے لوگ ان سے محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔
جوٹیال شفٹ ہونے کے بعد دکھی صاحب سے ملاقاتوں میں باقاعدگی پیدا ہو گئی تھی۔ہر تیسرے چوتھے دن نہیں تو،ہفتے میں ایک بار تو ضرور،ان کی خواہش پر لانگ ڈرائیو پہ جاتے تھے۔بہت دفعہ تاج صاحب ہمارے ساتھ شریک ِ سفر ہوتے۔ان کے چٹکلے،لطیفے اور شگفتگی سے زعفران زار ہوتے ہوئے کبھی بسین ہینزل کی طرف جاتے،کبھی گورو جگلوٹ یا آگے راکاپوشی کی طرف۔
اکثر میں اور دکھی صاحب ہی چلے جاتے تھے۔ پچھلے دو سالوں میں غذر کے قلمکار دوست نیا ز نیازی بھائی اکثر ہمارے ساتھ شریک ِ سفر ہوتے رہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ دنیور سے عباس نسیم صاحب وقت نکال کے ہمارے ساتھ آجاتے۔
بسین ہینزل کی طرف جانے کا ارادہ ہوتا تو دکھی صاحب،حفیظ شاکر صاحب کو فون کرتے۔کبھی وہ موجود ہوتے،کبھی کسی مصروفیت کی وجہ سے معذرت کر لیتے۔
دکھی صاحب فرنٹ سیٹ پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھ جاتے۔گاڑی کے ریکارڑ پلیر سے ابھرتی سوفٹ میوزک پہ کبھی سر دھنتے،کبھی وجد میں آکر کوئی شعر یا گیت کا ٹکڑا سنانے لگ جاتے۔
گلگت میں کہیں بھی،کوئی بھی فوت ہوجاتا۔ان کا فون آتا۔”سلیمی! فلاں بندہ یا بندی کا انتقال ہوا ہے۔اگر فارغ ہو تو وہاں چلتے ہیں۔تعزیت کر کے آتے ہیں۔“
ٍ میں اکثر ان کے ساتھ چلا جا تا۔بعض ایسے ایسے جنازوں میں مجھے لے گئے جنہیں میں بالکل نہیں جانتا تھا۔ان کی بھی کوئی رشتہ داری یا قرابت داری نہیں ہوتی تھی۔بس انسانی ہمدردی کا ایسا سودا ان میں سمایا ہوا تھا کہ انھیں خبر ہوتی تو مجال ہے وہ تعزیت کے لیے نہیں جاتے۔
میں کبھی کہہ بھی جاتا۔”سر! آپ اتنی پابندی سے ان جنازوں اور فاتحوں پہ جاتے ہیں۔کیا یہ اتنا ضروری ہے؟“
وہ کھوئے کھوئے سے کہہ دیتے۔”سلیمی! آج ہم نہیں جائیں گے تو کل ہمارے لیے کون آئے گا؟“
واقعی دنیا نے دیکھا ان کے جنازے میں لوگوں کا ایک جم غفیر امڈ آیا تھا۔ہر ذات کے،ہر مسلک کے،ہر علاقے کے لوگ ان کی محبت اور عقیدت کی زنجیروں سے بندھے چلے آئے تھے۔
دکھی صاحب بڑے دردمند اور گداز دل کے مالک تھے۔ہم اپنی کاہلی اور لاپر وائی سے،بہت دنوں تک انھیں فون نہیں کرتے تھے۔تین چار دنوں کے بعد وہ خود فون کر لیتے۔گلہ کے انداز میں کہہ دیتے۔”کبھی فون کر کے پوچھ بھی لیا کرو۔کیا پتا کب کون کس حال میں ہو گا؟“
ٍ وہ کتنے بڑے انسان تھے۔اس سے اندازہ لگالیں کہ جب کبھی میں کوئی چھوٹاموٹا بیمار ہوتا،انھیں علم ہوتا تو دن میں دو تین بار کال کر لیتے۔خیریت پوچھ لیتے۔دوائی یا ڈاکٹر کی پیش کش کرتے۔
میں شرمندہ ہو جاتا۔ان کی ہمدردی اور فکر مندی کے بارے میں جان کے دل ان کی محبت سے بھر جاتا۔
پچھلے دو تین سالوں سے ان کی طبیعت بوجھل بوجھل رہنے لگی تھی۔ہزار بار پوچھنے پر بھی ہنس کے ٹال جاتے۔کسے خبر تھی وہ اندر ہی اندر ایک آتش فشاں پال رہے تھے۔شاید انھیں علم تھا۔شاید انھیں الہام ہوا تھا۔وہ زیادہ ہنستے نہیں تھے۔ان کی باتوں میں،ان کے افکار میں ایک مایوسی اور دکھ کا بوجھل پن محسوس ہوتا تھا۔ بعد از مرگ کی زندگی،اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت،انسانوں سے محبت اور دنیا سے بے زاری ان کی گفتگو میں در آئی تھی۔
قارئین ِ کرام! دکھی صاحب کی زندگی ایسی ہمہ جہت اور ہمہ صفت تھی کہ دفتر کے دفتر لکھیں بھی تو کم پڑجائے۔یہ چند سطریں جو آپ پڑھ رہے ہیں،میں ان کے انتقال کے بعد جس سکتے کی کیفیت میں تھا،اس سے نکل کر قلمبند کرنے کی جرات کرسکا ہوں۔میں بھی،میرا قلم بھی دکھوں کا ساگر پی کے ہوش و حواس کھو چکے تھے۔ہوش میں آکر ان کی جدائی کے کرب کو جھیلتا ہوا یہ بے ربط سے الفاظ پیش کر رہا ہوں۔یہ مضمون کسی طرح بھی ان کی ذات اور صفات،ان کی شخصیت اور فن کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ہمت ہوئی تو آئندہ بھی ان پر لکھتا رہوں گا۔
فی الحال تو ان کی موت کے بعد اپنے بکھرے سکوں کو سمیٹنے کا امتحان درپیش ہے۔
کس پاس جا کے بیٹھوں، خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی سے آگئی
٭٭٭