رومی کی ’مثنوی‘ میں وحدتِ ادیان کا تصوّر
از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ
یوں تو دنیا کی تاریخ کے طویل دور میں مختلف مذاہب و ادیان کے بانیوں، فلسفیوں اور ماہرین سماجیات نے کسی نہ کسی صورت میں وحدتِ ادیان کا تصوّر پیش کیا ہے اور اس عظیم کائناتی حقیقت کو شرح و بسط سے بیان کیا ہے۔لیکن خدا آخری کتاب قرآن مجید و فرقانِ حمید میں اس تصوّر کو معقولیت کے ساتھ غیر مبہم طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔وحدتِ ادیان کے اس قرآنی تصوّر کی اچھی ترجمانی ازمنہ وسطیٰ کے عظیم صوفی شاعر اور مفکّر مولانا جلال الدّین رومی (متوفّی۔ ۲۷۶ھ / ۳۷۲۱ء) نے اپنی ’مثنوی‘ میں کی ہے۔
رومی کا عظیم شاہکار ’مثنوی معنوی‘ اسلامی علوم کی ایک جامع انسائکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے جس میں الٰہیاتی اور فلسفیانہ علوم و معارف سے لے کر تصوّف و عرفان کے رموز و اشارات، شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے اسرار تک موجود ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ معنویت سے بھر پور یہ کتاب، ’مثنویئ معنوی‘ آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ کی ایک جامع اور ہمہ گیر تفسیر بھی ہے۔ اسی بنا پر مُلّا جامیؔ نے مولانا رومی کو ”نیست پیغمبر ولی دارد کتاب“ کہہ کر نبوّت کے بغیر صاحبِ کتاب اور ان کی ’مثنویئ معنوی‘ کو ”ہست قرآن در زبانِ پہلوی“ کہہ کر فارسی زبان میں قرآن ]کی باطنی تفسیر[ قرار دیا ہے۔ اسی طرح دَورِ جدید کے ایک ممتاز ایرانی محقق اور دانشور ڈاکٹر سیّد حسین نصر بھی رومی کی’مثنوی‘ کو فارسی شاعری میں قرآن کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
” The Mathnawi of Rumi is also in every sense a commentary upon the Quran in Persian poetry.”
(S. H. Nasr. Ideals and Realities of Islam, Suhail Academy, Lahore, 1993, p. 160.)
ترجمہ:۔ رومی کی ’مثنوی‘بھی ہر لحاظ سے فارسی شاعری میں قرآن کی تفسیر ہے۔
نیز ایک اور ایرانی محقّق و مصنّف ڈاکٹر رضا زادہ شفق ’مثنوی ئ معنوی کے بارے میں اپنے تأثرات یوں بیان کرتے ہیں کہ: ”مثنوی معنوی بزرگ ترین میوہ افکار و بہترین جلوہ اشعارِ جلال الدّین بلکہ کامل ترینِ دیوانِ تصوّف در زبانِ فارسی است۔“ ( ابوطارق تورانی (مرتّبہ)۔ ’ادبِ جدید در مقالاتِ مفید‘، ص ص ۹۸۱) ترجمہ:۔ مثنوی افکار کا سب سے بڑا میوہ اور جلال الدّین ]رومی[ کے اشعار کا بہترین جلوہ بلکہ فارسی میں تصوّف کا سب سے مکمّل دیوان ہے۔
جیساکہ اوپر ذکر آیا ہے کہ مولانا رومی کی ’مثنویئ معنوی‘ قرآنِ حکیم کی معنوی تفسیر کا حکم رکھتی ہے اور اس میں جگہ جگہ قرآنی آیات کی حکیمانہ اور صوفیانہ تعبیر پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآنی آیت لَا نُفرِّقُ بَینَ أَحَدٍ مِن ُرسُلِہِ (بقرہ۔ ۵۸۲) (یعنی ”ہم اس کے رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے“)کی تشریح کرتے ہوئے رومی نے وحدتِ ادیان کا تصوّر دلنشین انداز میں پیش کیا ہے نیز مختلف مثالوں سے انبیائے کرام ؑ کے پیغام کی وحدت، اس کی عالمگیریت اور ان کے مشن کی حقّانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے نزدیک اگرچہ انبیاء ؑ کی شریعتیں اور طریقہ ہائے تعبیر الگ الگ ہیں لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے اور وہ ہے اللہ کی وحدانیت کی تعلیم۔ نیز رومی یہ بھی فرماتے ہیں کہ الفاظ مختلف ہوسکتے ہیں لیکن ان کا معنی ایک ہی ہے اور اشیاء کی شکلیں اور صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اصلیت اور جوہر ایک ہی ہے۔ پس رومی کثرت میں وحدت، الفاظ میں معنی اور ظاہری اشکال میں جوہر کی تلاش کی تلقین کرتے ہیں۔اس ضمن میں رومی مختلف مثالوں کے ذریعے اپنا نقطہئ نظر واضح کرتے ہیں۔ وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ؎
دہ چراغ ار حاضر آری در مکاں ہر یکے باشد بصورت غیر آں
فرق نتواں کرد نورِ ہر یکے چوں بنورش روئے آری بیشکے
اطلب المعنی من الفرقان و قل لا نفرق بین احاد الرّسل
گر تو صد سیب و صد آبی بشمری صد نماید یک شود چوں بفشری
در معانی قسمت و اعداد نیست در معافی تجزیہ و افراد نیست
منظوم ترجمہ:۔
دس دیئے ہوں اک جگہ روشن اگر مختلف آپس میں آئیں گے نظر
ہاں نظر آئیں گے وہ یکساں سبھی جب بھی ضو دیکھے گا ان کے نُور کی
اس کا مطلب دیکھ قرآں میں عزیز ”ہم رسولوں میں نہیں کرتے تمیز“
ہوں اگر سو سیب یا ہوں سو بہی عرق سو دانوں کا ہوگا ایک ہی
حرف ہوں گے کتنے ہی معنی تو ایک جزو ہوں گے کتنے بھی معنی تو ایک
(’نوائے رومی‘، ترتیب و ترجمہ: محمّد یوسف سیٹھی وفا، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۰۲۰۲ء، ص ۱۴۲)