کالمز

نوروز ایک نظر میں

از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ

انسانی تاریخ کے سرسری مطالعے سے ہی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان نے قدیم ایّام سے کچھ دن اپنی خوشی و غم اور عروج و زوال کی نسبت سے بطور ریت و رسم مختص کرتا رہا ہے۔ ان رسوم و تہواروں نے مرورِ زمانہ کے ساتھ دینی صورت اختیار کر لیا۔ چنانچہ ’نوروز‘ کا تہوار بھی ایک عالمگیر رسم کی حیثیت رکھتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں دُنیا کے مختلف ملکوں، معاشروں اور ثقافتوں میں موجود رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نوروز کو باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر منانے کا سہرا ایرانی بادشاہ جمشید کے سر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ساسانیوں کے زمانے میں جشن ِنوروز چھ دن منایا جاتا تھا اور اعتدال ربیعی کا دن (۱۲ مارچ) چھٹا دن تھا اور زرتشتیوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اس موقع پر خدا نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ہر شخص کو اس کی قسمت عطا کی۔ خداؤں کے دربار کا ذکر بھی زرتشتی عقیدے میں موجود ہے۔ ”اوستا“ میں جس دربار کا ذکر ہے وہ خدائے برتر رہور مزدہ نے منعقد کیا تھا جس میں جم (یعنی جمشید) بھی موجود تھا جو از روئے روایت جشن ِنوروز کا بانی ہے۔ (محمد اقبال۔ ”نوروز پر مزید نوٹ،‘ ’اورینٹل کالج میگزین‘، حصّہ اوّل، ایڈیٹر مولوی محمد شفیع، فروری، ۱۴۹۱ء جلد ۷۱ عدد ۲، صفحہ ۴۶۔۲۶۔۰۷)
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ساسانیوں کے زمانے میں اور بعد میں اسلامی عہد میں بھی نوروز چھ دن منایا جاتا تھا جن میں آخری یعنی چھٹا دن بہت اہمیّت رکھتا تھا جس کو البیروؔنی نے نوروز الکبیر لکھا ہے۔ (ایضاً، صفحہ ۷۶) چھٹے دن کی اہمیّت کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ساسانیوں کے زمانے کے تہوار، جو اصل میں موسمی اور دیہاتی نوعیت کے تھے اور رموزِ کاشتکاری سے متعلق تھے، تعداد میں چھے تھے جن کو مجموعی طور پر گاہان بار کہا جاتا تھا۔ چونکہ مذہب زرتشتی میں زراعت اور کاشتکاری کو ایک مذہبی فرض قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا رفتہ رفتہ ان تہواروں کا تعلق مذہب کے ساتھ بھی قائم ہوگیا اور مذہبی رسوم و عبادات بھی ان میں شامل ہوگئیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ نوروز کے دن صبح کو ندیوں پر جاکر نہانے اور ایک دوسرے پر پانی چھڑکنے کی رسم بھی تھی۔ کیونکہ بعض روایات کے مطابق جمشید (بانیئ نوروز) نے حکم دیا تھا کہ اس روز نہا دھو کر اپنے آپ کو پاک کرو۔ (ایضاٍ، صفحہ ۷۶، ۸۶)
جہاں تک نوروز کی اسلام میں قبولیت و پذیرائی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم سے منسوب ایک روایت بیان کی جاتی ہے جو اس مطابق ہے:
”ایک دفعہ رسول اللہؐ کے پاس تحفے کے طور پر ایک چاندی کا پیالہ جس میں مٹھائی تھی، لایا گیا، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا نوروز کی مٹھائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نوروز کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایرانیوں کا بہت بڑا تہوار ہے۔ فرمایا بیشک یہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے لشکر کو زندہ کیا، لوگوں نے پوچھا۔ یا رسول اللہؐ کون سا لشکر؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر کے مارے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ وہ تعداد میں ہزاروں تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ مر جاؤ پھر اُن کو اسی دن (یعنی نوروز کے دن) زندہ کیا ان کی روحیں ان کو واپس دیں ان پر مینہ برسایا اسی لئے لوگوں نے ایک دوسرے پر پانی ڈالنے کی رسم کو اختیار کرلیا۔ تب آپ نے مٹھائی کو چکھا اور باقی پیالہ اپنے اصحاب میں تقسیم کر دیا۔“ (ایضاً، صفحہ ۹۴)
پانی چھڑکنے کی رسم کی تاریخی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو تاہم وہ بظاہر ایک شگون تھا جو سرسبزی اور شادابی کی فال کے طور پر کیا جاتا تھا۔ کیونکہ نوروز جس کے معنی نئے دن کے ہوتے ہیں زندگی کا پیغام دیتا ہے کیونکہ یہ دن یعنی ۱۲ مارچ شمسی سال کے پہلے مہینے، حمل کا پہلا دن ہوتا ہے، اس دن سے زمین موسمِ خزاں و سرما سے نجات حاصل کر لیتی ہے اور ہر طرف زندگی کی گہما گہمی نظر آتی ہے، گھاس اُگنے لگتی ہے، درختوں میں نئی کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں، پھول کھلنے لگتے ہیں اور پرندے باغوں میں چہچہانے لگتے ہیں۔ یوں اس دن سے زندگی اور اس کی خوشگواریاں عام ہونے لگتی ہیں۔
نوروز کی تہوار جہاں مادّی و خارجی کائنات میں حیاتِ تازہ اور بہارِ نو کی خوشخبری لاتی ہے وہاں بنی نوعِ انسان کیلئے روحانی اور داخلی خوشگوار تبدیلی کی نوید بھی لاتی ہے۔ کیونکہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی جسمانی نشو و نما ہوتی رہتی ہے اور انسان ساخت و پرداخت کی ایک مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے۔ اس طرح انسان کے ذہن اور فکر میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ذہنی اور فکری صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ سوچ میں تبدیلی آتی ہے اور اس مطابق اس کے عمل اور زندگی برتنے کے طریقے میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ یوں انسان کی زندگی کا پورا قرینہ بدل جاتا ہے۔ نوروز انسان کو یہی پیغام دیتا ہے کہ وہ اپنی سوچ، فکر اور نقطہئ نظر میں تبدیلی لائے۔ کم علمی کو علمی فراوانی میں بدل دے، منفی خیالات کو مثبت خیالات میں بدل دے، اور وہ نقطہ ہائے نظر جو فرسودہ اور ازکار رفتہ ہوگئے ہیں ان کو خیرباد کہہ کر نئے، قابل ِ فہم، قابل ِعمل اور مفید مطلب نظریے اپنائے تاکہ وہ نئے دَور میں نئے تقاضوں سے ہم آہنگ آسودہ اور آبرو مندازنہ زندگی گزار سکے۔ جمود توڑ دے کیونکہ جمود مردگی کی علامت ہے اور تحرک و تبدّل کو اپنائے کیونکہ یہ معاشرے کو ہمہ وقت زندہ رکھتے ہیں۔ مستقبل کی فکر اور آگے سوچنے اور آگے بڑھنے کا عزم و ارادہ نوروز کا اصل پیغام ہے۔ لیکن یاد رہے کہ نئے نظریوں سے مراد دینی تعلیمات و عقائد اور اخلاقی اصولوں کو ترک کرنا ہرگز نہیں بلکہ ان سے مراد سیاسی، معاشی، تعلیمی، سماجی اور سائنسی تبدیلیاں ہیں۔ جیسا کہ مولانا حاضر امام شاہ کریم الحسینی آغاخانِ چہارم ؑنے ۱۲ مارچ ۰۶۹۱ء میں رنگون میں یہ پیغام دیا تھا کہ: ”… اور ہم چاہتے ہیں کہ اس نئے برس کے آغاز ہی سے تم اپنے مستقبل میں تھوڑا آگے سوچنے کی کوشش کرو۔“ (رنگون۔ ۱۲/ مارچ ۰۶۹۱ء، ’بارانِ رحمت‘، صفحہ ۵۲)
الغرض، نوروز جس کا آغاز ہزاروں سال پہلے ایران میں ہوا تھا، جو اس وقت کی زراعت و کاشتکاری کے عہد اور اس عہد کی مذہبی و سماجی ذہنیت و فکر کی عکاسی کرتا ہے، آج ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہم مادّی اور روحانی زندگی، خارجی اور داخلی دنیا اور انسانی فکر و نظر میں تبدیلی لائیں، اور زمانے کی تبدیلی کے عمل کا ادراک کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ زندہ رہنے کا گُر سیکھیں اور نئے مواقع اور نئے طریقے تلاش کرنے، بلکہ اقبال کے مصرے ’نیا زمانہ نئے زنانہ صبح و شام پیدا کر‘ کے اصول پر عمل پیرا ہونے کا عزم کریں۔ در اصل تبدیلی انسانی افکار کی تبدیلی سے عبارت ہے کیونکہ انسانی افکار ہی سے معاشرتی تشکیل اور زمانہ سازی ممکن ہوتی ہے اور انہیں سے سماجی تبدیلی رو نما ہوتی ہے ورنہ مادّی اشیاء تبدیلی نہیں لاتیں۔ بقولِ اقبال ؎
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button