کالمز

خان نے کب کو کونسی غلطی کی؟

تحریر۔اسلم چلاسی
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر آج تک کوئی بھی مضبوط جمہوری حکومت نہیں آئی معمولی نمبرات کے فرق سے تخت نشین اشخاص یا حکومتیں ہمیشہ آسان شکار رہی ہیں جب بھی اسٹیبلشمنٹ کی مفادات یا عالمی سامراجی قوتوں کے خلاف جانے کی کوشش کریں تو طاق میں تشریف فرما حزب اختلاف کے زریعے  اڑن تختہ ہوجاتی ہیں ۔ویسے بھی اس ملک میں مہذب دنیا کی طرح کی جمہوریت رائج نہیں ہے یہاں پر جمہوریت کے نام پر چند کاروباری گھرانوں کی موروثیت قائم ہے ان کی زرخرید سیاسی جماعتیں ہیں جو وراثت کی شکل میں باپ بیٹا بھائی بھانجہ بتیجہ کو منتقل ہوتی رہتی ہیں بٹھو گیا اس کی بیٹی آگئی بیٹی کے بعد بیٹی کا شوہر پھر نواسہ نواز شریف کے بعد شہباز شریف سے ہوتے ہوئے معاملہ مریم اورصفدر تک پہنچ گیا ہے آگے ان کے بچے آئیں گے اور ان کے بچوں کے بچے یہ سلسلہ جاری رہے گا اور عجیب بات یہ ہے کہ ان وڈیروں کی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں ہے سخت گیر مورثیت قائم ہے مگر یہ اقتدار  جمہوریت کے نام پر حاصل کرتے ہیں اور عام عوام کو جمہوریت کے ثمرات بتا بتا کر اپنے بدترین جمہوری امریت کو دوام دینے کیلے استعمال کرتے  ہیں یہ اپر کلاس کے صنعتکار جو اس ملک کی کل ابادی کے محض پانچ فیصد ہیں اور یہی پانچ فیصد پچانوے فیصد پاکستانی عام عوام پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں حالانکہ ان کو غربت مفلسی تنگدستی بیروزگاری بھوک و افلاس عام لوگوں کے ضروریات اور ترجیحات کا قطعاً علم ہی نہیں رکھتے یہ محلات میں بیٹھ کر جھومپڑیوں کے مکینوں کیلے پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس کی وجہ سے پچھتر سال بعد بھی اس ملک سے غربت ختم نہیں ہوئی بیرونی قرضوں پر ملک چلاتے ہیں جو قرضہ لیتے ہیں اس میں سے نصف خود ہی خورد برد کرکے اپنے لیے ملز فیکٹریاں اور کار خانے لگاتے ہیں بیرون ممالک میں جائدادیں بناتے ہیں بینک بیلنس کرتے ہیں  یہ کبھی غریب نہیں ہوتے دیوالیہ نہیں ہوجاتے مقروض نہیں ہوتے جبکہ ملک مقروض ہوکر دیوالیہ ہوگیا عوام غربت کی آخری لکیر سے نیچے پہنچ گئی ہے بھوک و افلاس کے ڈیرے ہیں مائیں بچوں کو فروخت کر رہی ہیں تنگدستی اور غربت کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہیں علاج معالجہ کی سہولت نہیں ہے مگر ان کی دھن دولت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اور عوام آے روز بدحال ہورہی ہے اعلی ایوانوں میں یہ خود تشریف فرماں ہیں یا پھر ان کے بٹھاے ہوے ان ہی کے کلاس کے صنعت کار ہیں مل بیٹھ کہ اپنے ہی کلاس کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بدقسمتی تو دیکھیں ان اعلی ایوانوں میں اس ملک کی کل ابادی کے پچانوے فیصد مڈل اور لور طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک فرد بھی موجود نہیں ہے خیر بات خان کی ہورہی تھی خان نے جو اس قوم کو رنگین خواب دیکھاے تھے غربت کرپشن چوری ڈاکہ زنی لوٹ مار  لاقانونت ختم کرکے تبدیلی اور خوشحالی کی طرف لیکر جانے اور چوری شدہ قومی دولت واپس لانے کے حوالے سے اس کیلے سب سے پہلے ان کو اپنی ٹیم کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تھا اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو بٹھانا تھا جو ملک و ملت کے ہمدرد ہو وفا شعار ہو باکردار ہو پرانے گھسے پٹے چلے اور جلے ہوےکارتوس نہ ہو  دوسری غلطی ٹکٹس دینے میں کیا نظریاتی لوگ مایوس ہوگئے مفاداتی ٹولوں کو موقع مل گیا تیسری غلطی اتحادیوں کو نظر انداز کرکے کیا ان کو اپنے حق میں استعمال کیا مگر ان سے کیے گئے وعدے وعید پورے نہیں کی اعتماد میں نہیں لیا ان سے دوریاں پیدا ہوئی اور وہ ہاتھ سے نکل گئے پھر جن لوگوں   کے خلاف ووٹ لیا تھا ان سے ریکوری نہیں کر سکا ان کو گرفتار تو کیا مگر پھر ان کو چھوڑ دیا گیا ایک لندن نکل گیا دوسرا بلاول ہاوس میں مزے کرتا رہا ان کو پکڑ کربالکل نہیں چھوڑنا چاہیے تھا بدقسمتی سے وہ چھٹ گئے اور اس قابل بھی رہے ہیں کہ دوبارہ ان جماعتوں کے کرتا دھرتا بنے ہوے ہیں کم از کم ان جماعتوں کو ان سے آذاد کرتے تو آج یہ نوبت نہیں آتی ایسے لوگوں کو اپنے کابینہ میں شامل کیا جو اپنے ہی محکمہ میں اپنے طور پر اصلاحات لا کر بہتری لانے کے قابل ہی نہ تھے کسی نے بھی زمداری سے کام نہیں کیا کسی بھی وزیر کا اپنے وزارت پر کنٹرول نہیں رہا کئی مواقعوں اور معاملات میں اپنے ہی فیصلے واپس لیے لیا گیا مہنگائی پر قابو نہیں پاسکا چینی گندم اور دیگر اشیا مارکیٹ سے غائب کردیا زخیرہ اندوز اور مافیاز کو قابو  میں نہیں رکھ سکا جس کی وجہ سے خودساختہ مہنگائی میں اضافہ ہوکر عام عوام میں مقبولیت میں کمی آگئی  خان کے اپنے تحریکی ساتھی ان سے دور کردیاگیا جہانگیر ترین جیسے ہمدرد لوگ پہچھے ہوگئے پنجاب میں حکومت لیکر غلطی کیا پھر اتنے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بزدار جیسے لوگوں کو لگاکر غلطی کیا جو معاملات کو سنبھال نہیں سکے جس کی وجہ سے طاق میں بیٹھے ہوے عالمی استعماری قوتوں کے الا کاروں کو موقع ملا اور عین وقت پر درست دیشا پر وار کردی اب چار سال گزر چکے ہیں ایک سال رہ گیا ہے انتخابی سال ہے اگر خان عدم اعتماد کا شکار ہوکر چلا بھی جاتا ہے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ان کی مقبولیت کم نہیں ہوگی آنے والے الیکشن میں ان کو اتنا نقصان نہیں ہوگا جتنا پی ڈی ایم پھیلا رہی ہے کیونکہ خان کیلے کسی ایک جماعت نے مشکلات کھڑے نہیں کی بلکہ ملک کے تمام سیاسی جماعتیں ملکر خان کا مقابلہ کر رہے ہیں ان کا یہ اتحاد خان کو گرانے کی حد تک ہے اس کے بعد یہ اپنا اپنا راستہ لیں گے اور الیکشن میں اپنے اپنے منشور کے ساتھ ایک دوسروں کے حریف بنکر میدان کا حصہ رہیں گے یوں ایک بار پھر خان میدان مارے گا مگر اب کے بار بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہونگے ۔اللہ تعالی ملک و ملت کو اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button