کالمز

فرض شناسی ہی ترقی کی ضمانت

قارئین! آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا یا پیشنگوئی کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے کہ کسی سمت کا تعین کریں یا نہ کریں ۔ اس سوشل میڈیا کے دور نے جہاں فاصلوں کو کم کر رکھا ہے وہی ہر بندے کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہوا ہے ۔نوجوان نسل سے لے کر ہر طبقہ ہر لمحے سوشل میڈیا پر مگن رہتے ہیں ۔ جب کبھی کسی پوسٹ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس پوسٹ کے حوالے سے مختلف تاثرات کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کس طرح کا سوچ رکھتی ہے ۔ جب اس پلیٹ فارم سے گزرتے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں تو سب کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کس حد تک مختلف معملات میں دخل انداز ی کی جارہی ہے ۔ ہر بندہ اپنی سوچ کے لحاظ سے دوسروں پر تنقید کے نشتر برساتا رہتا / رہتی ہے ۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی فرض شناس نظر نہیں آتا ۔بہت سارے ایسے لوگ ہیں جنکا تعلق سیاست سے بالکل نہیں لیکن ان کو بہت اچھے سے سیاست پر تنقید اور مدح سرائی کرنا جنون کی حد تک شوق رہتا ہے ۔ ان کا پیشہ الگ ہے لیکن شوق اور دلچسپی اسی فعل میں ہے جس کا تعلق ان کے ساتھ دور دور تک نہیں۔ اگر ایک استاد اپنی مہارت اور دلچسپی درس و تدریس پر ہی مرکوز رکھے تو ہی معاشرے سے جہالت دور ہو سکتی ۔اگر ڈاکٹر مریضوں کی تشخیص اور علاج پر توجہ دے تو ہی معاشرہ صحت مند رہے گا صحت مند معاشرہ ہی صحت مند انسان کی تخلیق میں معاون ثابت ہوگا اور اسی صحت مند انسان کے پاس صحت مند زہن ہو گا صحت مند ذہن ہی سوچ بچار میں مثبت پہلو تلاش کریں تو بہتر معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔۔اسی طرح سیاست دان کو اسکے حال پر رہنے دیا جائے ہی سود مند ہوگا ۔ آزاد خیال سوچ کا مالک سیاست دان ملک اور قوم کی نمائندگی بھی مثبت انداز میں کریگا/گی ۔اس طرح جتنے پیشے ہیں اور ان سے منسلک لوگ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرینگے تو ملک و قوم ترقی کریگی ورنہ یہ تماشے ہر سوں ہوتے رہنگے ۔ایک طبقہ دوسرے پر الزام لگائے اور دوسرا تیسرے پر یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور قوم کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوگی ۔ جس میدان میں ہم ہیں اس دائرہ اختیار کو ہی نسب العین تصور کرکے محنت کو اپنا شعار بنائے تو ترقی ممکن ہے ۔ دنیا میں جتنے اقوام موجودہ وقت میں ترقی کے منازل طے کررہی اس کا تعلق محنت اور فرض شناسی پر منحصر ہے ۔ یاں ہر کوئی اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اسکے پیشے کے بارے کوئئ انگلی نہ اٹھائے بلکہ جھوٹی تعریفوں کے پُل باندھے ۔ ہمارے ملک میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں پر جس پیشے سے تعلق وابستہ ہے کوئی بھی شخص مخلص نہیں آپ کئی لوگوں سے ان کے پیشے کے حوالے سے ہم کلام ہوں تو معلوم ہوگا کہ کس حد تک دلچسپی ہے ان کو اپنے پیشے سے ۔ جس پیشے سے منسلک ہے اسی کے بارے ہی اپنی سوچ اور عمل کو ڈھالنے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں کے بارے بلاوجہ اور بغیر تحقیق کے تبصرے کیا جائے۔

قوم کے نو نہالوں کی ذہن سازی اور کردار سازی میں ان رہنماؤں اور لیڈروں کا اہم کردار ہوتا ہے جو صاحب اقتدار اور اختیار ہیں ۔ تہزیب اور شائستگی کے بارے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی میدان میں بھی مشاہدہ کیا جائے وہاں ان دونوں کی کمی محسوس ہو گی ۔اس کی بنیادی وجہ ان رہنماؤں کی تقلید ہے جن کی لوگ کرتے رہتے ہیں ۔ان کی تقلید مختلف تناظر میں کی جاتی ہے بہت سارے زات پات کی بنیاد پر اندھا تقلید کرتے ہیں بعض لوگ مزہب کو بنیاد بناتے ہیں ۔ جس معاشرے میں علم کی فقدان ہو اس معاشرے میں بہت سارے محرکات شامل ہیں جس سے ملک و قوم ترقی نہیں کرتی جس میں موروثیت بہت بڑا عنصر ہے ۔باپ کسی بڑے عہدے پر ہے تو اولاد بھی اسی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ وہی منزل مل ہی جائے چاہے جائز ذرائع سے یا ناجائز زرائعے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ سے بہت سارے ایسے ہونہار اور قابل لوگ مایوسی کے عالم میں رہتے ہیں اور کوئی اثار نظر نہیں آتے ہیں۔۔موجودہ ملکی حالات میں بغور مطالعہ کیا جاسکتا ہے کہ تہزیب اور شائستگی کہیں نظر نہیں آتی ۔ جس طرح انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ قوم کے وقت کا ضیاع کیا جارہا اور حاصل کچھ نہیں۔ ایسے اصول مرتب ہوں کہ کسی غیر متعلقہ شخص کو تبصرہ کرنے کا گمان بھی نہ ہو ورنہ جس معاشرہ اور ملک میں اصول و ضوابط پر کاربند کوئی بھی پیشہ ور طبقہ نہ تو عدم استحکام ہی مقدر ہوگی ۔جو قوم خود کو نہیں سنبھال سکتی اسے کوئی نہیں سنبھال سکتا غربت ،بے روزگاری وہاں ختم نہیں ہوگی اور غربت اور بے روزگاری ہی معاشرے میں عدم استحکام کا موجد ہیں
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button