تعلیم

دنیا کے تمام انقلابات کے سرخیل نوجوان تھے، بلتستان یونیورسٹی میں‌ سیمینار سے مقررین کا خطاب

سکردو(خصوصی رپورٹ) بلتستان یونیورسٹی میں ”اصلاح معاشرہ میں نوجوانوں کا کردار ، سیرت النبیﷺکی روشنی میں“ کے عنوان سے ایک روزہ سیمینار کانفرنس ہال حسین آباد مین کیمپس میں منعقد ہوا۔ سیمینار کے روحِ رواں امام جمعہ والجماعت جامع مسجد حسین آباد آغا سید مظاہر علی موسوی تھے جبکہ شعبہ ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر صابر علی وزیریؔ نے اپنی پُرمغز گفتگو سے طلباء و طالبات کو مسحور کیا۔ کانفرنس ہال میں جگہ نہ ہونے کے باوجود طلباء وطالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔کمپیئرنگ کے فرائض شعبہ انوائرمینٹل سائنسز کی طالبہ میمونہ خان نے انجام دیئے۔تلاوتِ قرآن کی ذمہ داری صداقت حسین نے نبھائی جبکہ نعت پیش کرنے کا شرف بابر علی غوری کوحاصل ہوا ۔  رضاکار کے طور پر بلتستان یونیورسٹی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات محمد الیاس، شاہ نواز علی، مصائب نیازی، سید احمد علی شاہ، علی رضا، فیصل خان موجود تھے۔ سیمینار کے منتظم اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض رضیؔ تھے۔تصویری خدمات اخترحسین نے انجام دیں۔
قبل ازیں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صابر علی وزیریؔ نے طولِ تاریخ میں نوجوانوں کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اُنہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی اور تنزلی میں نوجوانوں کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا جہاں نوجوانوں کو ذمہ داری تفویض کرنے کے بجائے اُن سے اُٹھالی جائے۔ اُنہوں نے جدید دُنیا کے انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روس کا انقلاب ہو یا فرانس ، عرب بہار ہو یا مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد، ہر انقلاب کے پسِ پردہ نوجوان کا ہی کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ اُنہون نے اسلامی تاریخ کی تین مختصر مثالیں بھی بیان کیں اور کہا کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل و قابیل میں مخاصمت اگر پیدا ہوئی تو وجہ بھی ایک نوجوان کا کردار ہی تھا۔ ہابیل کا کردار متاثر کن تھا جبکہ قابیل کا کردار منفی پیرایئے میں تھا۔ دوسری مثال میں اُنہوں نے حضرت ابراہیم کی جوانی اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل کی فرمانبرداری کو قرآنی نقطہ نگاہ سے بیان کیا۔ تیسری مثال شہزادہ علی اکبرؑ کی دی کہ وہ نوجوان موت کا مشتاق اور دنیاوی خوف سے عاری تھا۔
ڈاکٹر صابر علی وزیریؔ نے طولِ تاریخ کو آدم سے شروع کیا اور کربلا کی مثال دے کر اپنی تقریر کو اختتام کیا۔
کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے آغا مظاہر علی موسوی نے بلتستان یونیورسٹی کو خطۂ بلتستان کا خوبصورت چہرہ قرار دیا۔ اُنہوں نے تاریخِ اسلام کے مثالی عہد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضورختمی مرتبﷺنے چالیس امرباالمعروف کیا اور صرف تیرہ سال امربا الواجب کیا۔دعوتِ ذوالعشیرہ کی مثال دیتے ہوئے آغا مظاہر نے کہا کہ اُس دعوت میں بڑے بڑے بزرگ تھے۔ نامی گرامی شخصیات موجود تھیں، لیکن جب اللہ کے نبیﷺ نے نصرت  مانگی تو ایک دس سال کا بچہ کھڑا ہوا اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ اللہ کے نبیﷺنے اُس بچہ کی نصرت کو قبول بھی کیا۔ مشہورصحابی حضرت مصعب بن عمیرکی مثال دیتے ہوئے آغا مظاہر نے کہا تھا کہ یہ نوجوان امیرانہ زندگی گزار رہا تھا، دینِ اسلام کی حمیت جاگی اور پیغمبراسلامﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ اللہ کے نبیﷺ نے اس نوجوان کو مدینہ منورہ کےلئے اپنا نمائندہ بناکر بھیجا۔ اُنہوں نے دینی و دنیاوی علوم کی تقسیم کی نفی کی اور قرار دیا کہ اسلام کی نگاہ ہر وہ علم نافع ہے جس میں انسانیت کا شعور بڑھے۔ آغا مظاہر علی نے کہا کہ مرد و عورت میں کوئی تفریق نہیں۔ اسلام نے دونوں کو برابری کا مقام دیا ہے۔ سیمینار کے آخر میں بلتستان یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے  ڈپٹی رجسٹرار موسیٰ علی نے معزز مہمان کی خدمت میں شیلڈ پیش کی۔ واضح رہے کہ سیمینار براہِ راست فیس بک پر نشر کیا جارہا تھا اور آئی ٹی سیکشن کے زاہد عباس پورے سیمینار کی نگرانی کررہے تھے۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button