شدت کی گرمائش اور ہمارے گلیشئرز – آخری قسط
ڈاکٹر ذاکرحسین ذاکرؔ
(قسط سوم ۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ)
جب ہم گلیشئر جیسے کسی بے جان شے کو اُگانے کی بات کرتے ہیں، پروورش کرنے کی بات کرتے ہیں، تو عموماًاپنے آپ کو سائنسی ذہن کے مالک سمجھنے والے اسے اگر فوراً غیر سائنسی اور یوں توہمات نہ قرار دیں تو کم از کم شک اورمذاق کی سماعتوں سے سنتے اور نگاہ سے دیکھتے ضرور ہیں۔ اور جب ہم مقامی روایت، یا ثقافتی عمل کہتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں ، اچھا، تو ثقافت کہو نا، ثقافت یا روایت میں ٹیکنالوجی کہاں سے آگیا؟ یہ ہیں وہ رویے جن کی وجہ سے ہم بہت سے مقامی اور دیسی سائنسز اور ٹیکنالوجیز سے استفادہ نہیں کر پاتے، کیونکہ ہمیں صرف ولایتی سبق پڑھایا گیا ہے اور یہ سمجھایا گیا ہے کہ جو کچھ مغرب یا ترقی یافتہ ممالک سے آئے وہی سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں ، باقی اہل ِمشرق کے تمام کارنامے، کامیابیاں اور پریکٹس روایات، ثقافت اور توہمات یا ٹوٹکوں اور جگاڑ کے علاوہ کچھ نہیں۔اگر زیادہ سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھی جائے تو روحانیات ہیں، جو طبعیات سے بالکل جدا کوئی چیز ہے۔ کلاسیکل میکانیات کے سحر میں اسیر اس طرح کے سائنسی اذہان کو ابھی تک آئن سٹائن کا نظریہ اضافت بھی ہظم نہیں ہوا ہے، روحانیات اور کوانٹم میکانیات سے متعلق فلسفے کی باتیں شاید ان کے لیے نا ممکنات یا واہیات کے زمرے میں آتے ہیں۔ معذرت خواہ ہوں، چونکہ مجھے خود اس طرح کی رویّوں سے پالا پڑا ہے ۔ اس لئے یہ تمہیدی کلمات ضروری ہیں۔
زندگی سماجی علوم اور سائنسی علوم کے ساتھ دیگر انسانی علوم بشمول روحانیات و ادبیات ، تہذیب و ثقافت کا مجموعہ ہے جو نہ صرف باہم متصل اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے کی رموز کے امین ہیں۔ آج کی جدید سائنس میں ایتھنو بائیالوجی ایک اہم سائنسی شعبہ یا شاخ ہے جس میں انسانوں اور نباتا ت یا حیوانات کے باہم ربط و تعلق، استفادہ اور ثقافتی روایات میں موجود سائنسی مفاہیم اور نکات کے ساتھ مختلف مسائل کے ممکنہ سائنسی وجوہات کی کھوج لگائی جاتی ہے۔ ان تمام انسانی علوم طبعی، غیر طبعی اور ماورائے طبعی ( ما بعد الطبعیات ) میں سے کسی ایک بھی اہمیت کم کر دی جائے تو حیات ِ انسانی توازن سے دور ہو جاتا ہے، جس کے نتائج دیرپا اور خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
بلتستان کی مقامی روایت اور تاریخ و ثقافت کے مطابق گلیشئر اُگانے یا گلیشئر کی نشو نما کرنے کی روایت تسلسل کے ساتھ عملی طور پر آزمودہ نسخہ اور عمل ہے جس کے عملی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بلتی زبان میں ’’ گانگ خسوا‘‘ Rearing or nurturing glacier کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس میں گلیشئر کے ساتھ ایک نازک بچے یا ایک نوخیز پودے کی طرح پیار، احتیاط، توجہ اور نشونما اور تربیت کے مفاہیم وابستہ ہیں۔ اور یہ ایک مسلّم روایت ہے کہ گلیشئر کے ساتھ کسی بھی قسم کی بد تمیزی جیسے اس پر آلائشوں کا ڈھیر لگانا، اسے گند اکرنا وغیرہ اس تربیتی مفہوم کے خلاف ہے جس سے گلیشئر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور ممکنہ طور پر گلیشئر اپنا ردِّ عمل بھی دے سکتا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ گلیشئر اُگانے کی اس عمل اور طریقہ کار کے ساتھ بہت سی ثقافتی روایات اور سائنسی اعتبار سے غیر متعلقہ عملیات بھی وابستہ ہیں، جن کی اپنی علیحدہ حیثیت اور اہمیت ہیں۔
بلتستان میں گلیشئر اُگانے کی مقامی ٹیکنالوجی اور روایت کا سُن کر چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کا ایک پروفیسر 2019میں بلتستان آیا تھا،پھر بلتستان یونیورسٹی میں اس موضوع پر مطالعاتی کاوشوں کا علم ہونے پر جناب فدا محمد ناشاد صاحب کو لے کر یونیورسٹی میں میرے پاس آیا تھا۔ پروفیسر موصوف سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کی گفت و شنید ہوئی۔ وہ اس مقامی ٹیکنالوجی کی سائنس جاننا چاہ رہا تھا۔ میں نے اپنی معلومات اور فہم کے مطابق ان کو گلیشئر اُگانے کی سائنسی بنیادوں کے بارے میں بتایا ۔ گلیشئرز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے منفی توانائی، پرما فراسٹ اور اس طرح کے کئی دیگر تصورات پر باتیں ہوئیں۔ یہ تو نہیں معلوم کہ پروفیسر صاحب ہمارے دلائل سے کس حد تک مطئن ہوئے، انہوں یہ ضرور کہا کہ یہ روایت نہایت دلچسپ ہے۔ چار پانچ پاہ بعد پتہ چلا کہ ہمارے کاندے اور ہوشے کے کچھ ہائی پورٹرز شگر بلترو گلیشئر میں ایک چائنیز مشن میں کام کر رہے تھے۔ یہ مشن بلترو گلیشئر کی مختلف مقامات اور گہرائیوں سے گلیشئر سے نمونے نکالنے پر مامور تھے۔ ان نمونوں(سیمپلز )کو وہیں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے چائنہ منتقل کیا جا تا تھا۔ اگرچہ مذکورہ چائنیز پروفیسر کا دورۂ بلتستان اور گلیشئر پراس تحقیقی مشن یا منصوبے کے بارے میں کسی تعلق کا علم نہیں ، تا ہم مجھے لگا یہ بات بعید نہیں کہ مذکورہ مشن اسی پروفیسر یا چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کا کوئی پروجیکٹ ہو جو گلیشئر اُگانے کی امکانات کا جائزہ لینے کیلئے گلیشئر کے نمونے حاصل کر رہے تھے۔
گلیشئر اُگانے کی طریقہ کار اور نتائج کے بارے میں سپین کی باسک کنٹری یونیورسٹی کا باسک سنٹر فار کلائمیٹ چینجBC3 بھی گہری دلچسپی لے رہا ہے۔ ان سنٹر کے ایک محقق نے اپنا پی ایچ ڈی مقالہ بلتستان شگر کے بلترو گلیشئر سے حاصل شدہ مواد پر کیاہے۔
میڈیا کے حوالے سے بات کریں تو مقامی میڈیا کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے حالیہ سالوں اور مہینوں میں بلتستان یونیورسٹی کے تحت گلیشئر اُگانے کی طور طریقوں اور کہانیوں کو شائع کیا ہے۔ جس میں اردو زبان میں بی بی سی اردو کا رپورٹ، انگریزی میں تھرڈ پول، پاکستان آرمی کا ہلال میگزین اور جامعاتی ماہناموں میں ایجوکیشنسٹ میں تفصیل سے شائع شدہ مضامین سر فہرست ہیں۔
گلیشئر اُگانے کے کئی طریقے ہیں۔ جن میں گلیشئر گرافٹنگ دیر پا نتائج کے حامل طریقہ کار ہے، جس سے کم و بیش دو دہائیوں کے اندر ایک چھوٹا سا پھلتا پھولتا گلیشئر وجود میں آتا ہے جو مقامی آبی وسائل کی ضروریات پورا کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ ساتھ ہی اپنے ارد گرد قدرتی گلیشئر والا ماحول پیدا کرتا ہے۔ عارضی نوعیت کے گلیشئر اُگانے یا ٹھوس پانی کے ذخائر بنانے کے تین طریقے ہیں پہلا آئس ٹاورنگ جسے بلتی میں ’’گانگ پیو ‘ ‘ یعنی مینارۂ آب بنا نا ہے جس کا عملی مظاہر ہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے ۔ بڑھتی آبادی اور پھیلتی ذرعی اراضی کے ساتھ پانی کی قلت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اس طریقہ کار کے تحت عارضی مینارۂ آب ، گانگ پیو یا آئس ٹاور بنانے کے لیے مختلف مواضعات سے کافی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔یہ طریقہ کار لداخ میں آئس سٹوپا کے نام سے مشہور ہے۔ تاہم طریقہ کار اور اہداف کے حوالے سے مینارۂ آب بنانے اور آئس سٹوپا میں تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہے۔ عارضی ٹھوس پانی کا ذخیرہ بنانے کا دوسرا طریقہ کار برفانی تودوں کو کافی بلندی پر ہی روک کرنسبتاً سخت آئس ماس بنانے کا ہے،جسے Avalanche Harvesting کہتے ہیں۔ عارضی ٹھوس پانی کا ذخیرہ بنانے کا یہ طریقہ ایک طرف برفانی تودوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرتا ہے اور دوسری طرف ٹنوں کی مقدار میں برف کو پھیلنے اور یوں ضائع ہونے سے بچا کر ٹھوس پانی کا ایک معقول ذخیرہ بناتی ہے۔
تیسرا طریقہ پہاڑوں کے اوپر موجود نسبتاً ہموار چراگاہوں میں سردیوں کے دوران سلسلہ وار کم گہرے مصنوعی جھیلیوں میں پانی جمع کرنے کا ہے جو جم کر کافی مقدار میں برف کا ذخیرہ بناتی ہے اور اسے بھی پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بلتستان یونیورسٹی علاقے کی واحد اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہونے کے ناطے ان مقامی ٹیکنالوجیز کی فروغ اور ان کو جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے میں کوشاں ہے، تاکہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں ان اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ جن سے مقامی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کو مثبت اورخوشگوار بنایا جا سکے۔
اس ضمن میں کسی بھی فرد، ادارے یا تنظیم کو معلومات یا رہنمائی کی ضرورت ہو تو راقم سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Zakir.hussain@uobs.edu.pk