چقچن مسجدو خانقاہ، بلتستان کا عظیم ثقافتی ورثہ
کالم ۔ قطرہ قطرہ
تحریر۔ اسرارالدین اسرار
بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال چقچن مسجد ضلع گانچھے کا ضلعی ہیڈ کوارٹرخپلو میں واقع ہے۔ سیرو تفریح یا کسی بھی کام کی غرض سے خپلو جانے والے لوگ اس مسجد کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں. مقامی لوگوں کے مطابق مسجد کے اندرونی دروازے کے ساتھ لٹکے دو زنجیروں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کوئی بھی حاجت کی دعاکی جائے یا منت مانگی جائے تو وہ لازمی طوع پر پوری ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں خواتین و حضرات یہاں حاجت مانگنے جاتے ہیں۔ ہم جب بھی کسی کام سے خپلو جاتے ہیں تو چقچن مسجد ضرور جاتے ہیں۔ یہ مسجد تبتی ایرانی اور کشمیری فن تعمیر کا ایک حسین و جمیل اور شاندار امتزاج رکھتی ہے۔ اس مسجد کو مقامی سطح پر قدیم ترین تاریخی، ثقافتی اور مذہبی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
لوگ اپنے تنازعات کے حل کےلئےآج بھی چقچن مسجد میں آکر قسم کھاتے ہیں جس میں دو فریقین یہ دعا مانگتے ہیں کہ جس کا حق ہے اس کے لئے مخالف فریق کا دل نرم ہوجائے اور وہ خود اس حقیقی حقدار کے حق سے دستبردار ہوجائے۔ شنید ہے کہ سینکڑوں دفعہ ایسا ہوچکا ہے کہ حقدار کو اس کا حق ملا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا اصلی نام شوق چن تھا۔ بلتی زبان میں شوق چن کا مطلب فیصلہ کرنے کی جگہ ہے۔
جب سے انسان نے خپلو کی سر زمین پہ قدم رکھا ہے تب سے یہ جگہ متبرک رہی ہے اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ کا درجہ دیکریہاں اپنے عقائد کے مطابق اپنی عبادات بجا لاتے رہے ہیں۔
چقچن مسجد کا تاریخی پس منظر بہت خوبصورت اور حیران کن ہے ۔ تاریخی کتب میں لکھا گیا ہے کہ ہزاروں سال قبل گلگت بلتستان کے لوگوں کا مذہب بونگ شوس تھا جس کو دیو مالائی مذہب کہا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں کئ لوک داستانیں مشہور ہیں۔ اس مذہب کے ماننے والے لوگوں نے یہاں اپنی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جس میں کئ صدیوں تک وہ عبادات کرتے رہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہاں کے لوگ بدھ مت کے پیروکار بن گئے جس کے بعد اسی عبادت خانے کو نقصان پہنچائے بغیر اس کے اوپر ایک منزل بنائی گئ جس کو بدھ مت ٹیمپل یعنی خانقاہ قرار دیا گیا اور بدھ مذہب کے عقیدے کے مطابق عبادت شروع کی گئ۔ بدھ مت کے پیروکار بھی صدیوں تک یہاں عبادت کرتے رہے ہیں۔
آج سے 8 سو سال قبل پہلا مبلغ اسلام حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سیاچن کے راستے خپلو پہنچے ۔ ان کی آمد کے بعد مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان بن گئے۔ مقامی لوگوں نے بونگ شوس اور بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کی تعمیر شدہ خانقاہ کو منہدم کرنے کی بجائے اس کے اوپر لکڑی کی مدد سے تیسری منزل تعمیر کی اور اپنی عبادت شروع کی۔ اس عبادت گاہ کو منہدم نہ کرنے کا مقصد بونگ شوس اور بدھ مت کے پیروکاروں کی دل آزاری سے اجتناب کرنا تھا اور ساتھ میں ہزاروں سال سے مقدس اور متبرک سمجھی جانے والی اس جگہ کے تقدس کو برقرار رکھنا تھا۔
نچلی دو منزلوں کے اوپر لکڑی کی مدد سے تیسری منزل یعنی مسجد بنانے کے لئے عبادت گاہ کی ایک طرف لکڑی کا اور دوسری طرف پتھر کا مضبوط ستون نصب کیا گیا ہے تاکہ اس کے اوپر مسجد تعمیر کی جاسکے. یوں اس کی تیسری منزل تعمیر کی گئ اور اس کو مسجد کا درجہ دیا گیا۔
چقچن مسجد کی تعمیر کے حوالے سے ایک اختلاف یہ پایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی بنیاد حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی، میر سید محمد نوربخش یا میر شمس الدین عراقی میں سے کس نے رکھی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کو ایک طویل عرصہ لگا ہے جس میں مذکورہ اہم شخصیات کا بنیادی کردار ہے۔ موجودہ وقت میں یہ مسجد دو مقامی مسالک کے پیروں کاروں کی مشترکہ عبادتگاہ ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اس میں عبادت کے لئے جگہ کم پڑ گئ تو صدیوں قبل چوتھی اور آخری منزل بنائی گئ۔ جو کی لکڑی کا ایک جال بچھا کر تعمیر کی گئ ہے۔ جہاں ہر طرف خوبصورت چوب کاری کی گئ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بالائی مسجد کی تعمیر کو مکمل ہونے میں ایک صدی کا عرصہ لگا ہے۔ جس کا اندازہ اس کے اندر باریکی اور کثرت سے کی گئ دلکش اور خوبصورت کندہ کاری ہے۔