بالاور قوم!
پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان میں اپنی فطری موت مرنے کے قریب ہے۔ قائد حزب اختلاف امجد حسین ایڈوکیٹ صاحب ایک نادیدہ خوف کے سائے میں ہیں جس کی بنیاد پر ان کے اندر سیاسی غور و فکر اور تدبر کا وہ عنصر باہر نہیں نکل پارہا ہے جو 2016کے بعد سے ایک تحریکی شخصیت اور قائد کے طور پر نظر آتا تھا۔ محض 2020 کو بیچ میں رکھ کر امجد ایڈوکیٹ کی سیاسی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو دو الگ الگ شخصیات نظر آتی ہیں۔
پہلی شخصیت میں اسمبلی، گاڑی، سکیم،منصوبے، گریڈ1جیسے چیزوں کی بجائے مظاہرے، تحریکیں،جلسے، سیاسی کارکنوں کے امیدوں کا محور، کارکنوں کے لئے راستہ فراہم کرنے کے لئے کوشاں رہتے نظر آتے ہیں۔ دوسری شخصیت میں سب اس کے برعکس ہے، امجد ایڈوکیٹ کی 2020سے پہلے کی سیاسی زندگی کو دیکھتے ہوئے یقین نہیں آسکتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالف کے خلاف توہین عدالت جیسے تکنیکی چیزوں لیکر میدان میں نظر آئے۔
بات بڑی ناجائز اور ناانصافی پر مبنی ہوگی اگر ایک شخصیت پر ایک ہی رخ سے منظر کشی کی جاتی رہے تو، اسلئے ناگزیر ہے کہ دوسرے رخ کی جانب سے بھی دیکھنا ہوگا۔ اس دوسرے رخ میں سابقہ مخالف حفیظ الرحمن نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف، صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید ہیں۔ اس رخ کی جانب سے جتنا خلاء پیدا کیا جاتا رہا ہے اس میں شاید امجد ایڈوکیٹ اب بھی پورے کے پورے داخل نہیں ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کبھی مرکز کی نقل کرنا چاہتی ہے کبھی عمران خان کی جو مشکل ہی نہیں یقینا ناممکن ہے۔خالد خورشید کی بڑی بدقسمتی رہی کہ مرکز میں حکومت کی تبدیلی،جسے وہ ’رجیم چینج‘ قرار دیتے ہیں، نے سیاسی طور پر نقصان پہنچادیا۔
ایک نظر میں جائزہ لیں تو انداز ہ ہوتا ہے کہ گلگت سکردو روڈ کو انہوں نے عمران خان کا تحفہ قرار دیدیا کیونکہ یہ عمران خان کے دور حکومت میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اور اس بات پر پردہ ڈال دیا گیا کہ اس میگا منصوبے کے لئے سابقہ صوبائی حکومت نے کیا کیا جتن کئے تھے تاہم مرکز کی قوت کے باعث یہ دعویٰ حقیقت سے قریب محسوس ہوا۔ دعوؤں کا یہ دور سب سے کم خالد خورشید کو نصیب ہوا ہے۔ عبوری آئینی صوبے کے بھاری بھرکم اور لاؤڈسپیکر کے اعلانات پر عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات بطور دستاویز کو ئی کاغذ بھی سامنے نہیں آسکا، میگا منصوبوں کی تکمیل میں فیتے کاٹنے کے لئے مواقع کم سے کم ملے، 370ارب روپے کے ’میگابجٹ‘ محض اگلے سال ہی فلاپ ہوگیا۔کاغذی مراحل سے گزرکر سامنے آنے والے منصوبوں پر زیادہ توجہ نہیں رہی۔ ہینزل پاور پراجیکٹ، گلگت غذر شندور ایکسپریس وے سست روی کا شکار رہا، دیامر بھاشا ڈیم پر عمران خان کے دورے کی حد تک توجہ دیدی گئی، گندم سبسڈی بحران ’ناکردہ گناہوں‘ کی سزا کے طور پر بحران کی شکل اختیار کرگیا۔ بجلی پانی کا کوئی منصوبہ گراؤنڈ پر نہیں آسکا، تعلیمی اعتبار سے قابل زکر اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے ہیں البتہ صحت کے شعبے میں حکومتی توجہ بڑی حد تک نظر آگئی تاہم جتنے اعلانات ہوئے اتنی توجہ نہیں رہی۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں ان سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل بیانیہ ہوتا ہے جس میں بنیادی غلطی حکومت سے یہ ہورہی ہے کہ وہ مرکز کی لڑائی کو گلگت بلتستان سے لڑنا چاہتے ہیں جس سے جتنی جلدی نکل جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی کسی بدقسمتی سے کم نہیں ہے کہ ایسا ترجمان جزولاینفک ثابت ہوا ہے جس کے پاس مدلل ترجمانی تو دور کی بات اچھی تشہیر کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہے، ابھی آج کا بیان کہ ’امجد ایڈوکیٹ پٹرول میں ہیراپھیری کررہا ہے‘ کو پڑھ کر تو بے ساختہ ہنسی نکل آتی ہے۔
بات پاکستان پیپلزپارٹی سے نکل پڑی ہے اور پیپلزپارٹی کا ماضی گلگت بلتستان کی مقامی سیاسی جماعت جیسا ہی رہا ہے جس میں ان کے مرکز کی حیثیت کا اثر بھی شامل ہے۔آج بھی ٹھوس اقدامات کا پلندہ اٹھائیں تو ہر کاغذ پر پیپلزپارٹی کا تذکرہ ضرور ملے گا تاہم یہ سلسلہ 2009تک رہا ہے اس کے بعد اصلاحات کا معاوضہ بڑی حکومت کی شکل میں مل گیا لیکن بے ہنگم صورتحال، ترقیاتی منصوبوں میں جمود، اور بدنظمی کے معراج نے ان سے اکثریتی ’خطابات‘ چھین لئے اور 2015کے انتخابات میں بری طرح سے پٹ گئے۔امجد ایڈوکیٹ نے پیپلزپارٹی کی بھاگ ڈور جس وقت سنبھالی اس وقت کارکنوں میں شاید دوبارہ اٹھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوچکی تھی، گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن دوتہائی اکثریت کے ساتھ یک جماعتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا کردار امجد ایڈوکیٹ نے ادا کردیا یہاں تک کہ ایک وقت میں اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرکیپٹن (ر) محمد شفیع خان نے اسمبلی کے نشست امجد ایڈوکیٹ کے لئے خالی کرنے کا بھی اعلان کردیا تھا، یہ اور بات ہے کہ شفیع خان صاحب اب مسلم لیگ ن کو پیارے ہوگئے ہیں۔
اپوزیشن کے چار سالوں میں پیپلزپارٹی نے کوئی ایک ایشو ایسا خالی نہیں چھوڑا ہوگا جس میں انہوں نے اپنے حزب اختلاف کا کردار ادا کیا ہو حالانکہ اسمبلی میں صرف 1ممبر تھا۔عوامی سطح پر حق ملکیت اور حق حاکمیت جیسے تحریکوں کو لیکر عوامی مقبولیت حاصل کرلی اور بہت جلد اپنے کھوئے ہوئے مقام کے قریب پہنچی۔یہاں سے پیپلزپارٹی کا ایک نیا زوال شروع ہوگیا،2020کے انتخابات میں پیپلزپارٹی صرف تین نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے جس میں سے 2نشستیں خود امجد ایڈوکیٹ کی تھیں جس میں سے بعد میں ایک حلقہ ضمنی الیکشن میں اسلامی تحریک کو پارسل ہوگیا۔ ان انتخابات میں امیدواروں کی نامزدگی میں امجد ایڈوکیٹ نے صریح غلطیاں کرڈالی جس کی وجہ سے پہلا اور آخری حلقہ مل گیا بیچ والے آزاد، ن لیگی اور تحریک انصاف والے تقسیم کرگئے۔پیپلزپارٹی کو اس وقت اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ گرمجوشی انہیں بخارات کی طرح ہوا میں اڑائے گی۔
اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر غیر ضروری اپوزیشن پیپلزپارٹی کی کشتی کو ڈبورہا ہے۔ اپنے مخالف امیدوار کے کیس کی پیروی نہ کرکے ان کو پانچ سال پورے کرنے دینے والے امجد ایڈوکیٹ اب وزیراعلیٰ خالد خورشید پر توہین عدالت کا مقدمہ بنوانے کی کوشش کررہا ہے۔یہ امر ایک مرتبہ پھر زیر قلم آتا ہے کہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان میں صحرا کے اونٹ کو لیکر اتری ہوئی ہے،اگر حکومت غلطیاں نہیں کرتی تو شاید پیپلزپارٹی مزید مسائل میں الجھ جاتی۔اسمبلی کی حالت سے لیکر کابینہ کی حالت تک حکومت کا کوئی کل بہتر نظر نہیں آرہا ہے۔ذاتیات کی حد تک اترنے والے بیانات حکومت کا یہ پول کھولنے کے لئے کافی ہیں کہ عوامی فلاح و بہبود میں حکومت عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہی ہے۔گلگت بلتستان سے زیادہ اسلام آباد میں قیام پذیر ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔ ریونیو اتھارٹی،جعلی ڈگری کیس، الیکشن ٹریبونل کیسز، محکمہ جاتی امور کسی ایک معاملے میں حکومت اپنے سچ کو بھی سامنے لانے میں ناکام ہے جبکہ مخالفین جھوٹ لیکر بازار آگئے ہیں۔مسلم لیگ ن کچوے کی چال چل رہی ہے تاہم شہباز شریف کی حکومت ان کو سامنے آنے میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے،مرکز کی جانب سے صرف قدرتی آفات کے متاثرین کیلئے اعلانات کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو لیکر عوام کے سامنے آجائے۔اس ساری صورتحال کا جو نزلہ گررہا ہے وہ ’بالاور قوم‘ پر گررہا ہے جن کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں کم نہیں۔