کالمز

قصہ اک کھلاڈی کا

رشید ارشد
کھلاڈی صرف کھیلتا ہے ۔اسے صرف کھیلنا آتا ہے ۔سو وہ کھیلتا ہے ۔اک سیاستدان کو اٹھا کر حکومت کھلاڈی کے حوالے کی جائے تو وہ اپنے مزاج کےمطابق کھیلتا ہے۔
اک کھلاڈی کیا جانے ملک کی خارجہ پالیسی سے کھیلنے سے ملک کس نہج پر پہنچ جاتا ہے وہ تو کھلاڈی ہے اسے حکومت بچانے کے لئے کھیلنا ہے اسے ملک کی سلامتی سے کیا غرض ۔
وہ تو محض کرکٹ گراونڈ میں زور سے بال بیڈ کی طرف اچھالنے کا عادی ہے ۔اس نے ساری زندگی بال پھینک کر داد سمیٹی ہے ۔اپنے اس فن کی وجہ سے سلیبرٹی بن چکا ہے۔اس  کے ارد گرد حسن والوں کی بارات ہے ۔اس نے زندگی کا بیشتر حصہ یورب کے نائٹ کلبوں میں ۔پلے بوائے۔ کی ڈیوٹی نھباتے گزارا ہے ۔اسے صرف کھیلنا آتا ہے ۔
اس کھلاڈی اور پلے بوائے کو ایک دفعہ اچانک ملک حوالے کر دیا گیا اسے خبر ہی نہ تھی کہ ریاست کیسے چلائی جاتی ہے اس نے کھیلنا ہی سیکھا تھا سو اس نے ریاست کو کھیل کا میدان ۔ عوام کو تماشائی اور فوج کو ایمپائر تصور کیا۔۔۔۔
آہستہ آہستہ اسے وزیر اعظم کی کرسی سے پیار ہونے لگا تو اس نے سوچا کہ میں ایک کھلاڑی ہوں ریاستی امور سے آشنائی نہیں سیاسی رموز کا ادراک نہیں ۔میں کیسے کرسی پر لمبے عرصے تک براجمان رہ سکتا ہوں۔بہت سوچ بچار کے بعد اس نے یہ حل ڈھونڈا کہ کیوں نہ ریاست کو کھیل کا میدان عوام کو تماشائی اور فوج کو ایمپائر تصورکر کے اپنی مرضی کا کھیل کھیلوں ۔۔۔۔
تین برس تو اس نے عوام کو کھبی مغرب کی کھبی مشرق کی کہانیاں سنا کر گزار دیں ۔یہ کہانیاں ختم ہوئیں تو ریاست مدینہ کے مقدس تصور کو اپنی تقریروں کا حصہ بنا دیا ۔ان سب اقدامات کے بعد بھی اسے محسوس ہوا کہ اقتدار خطرے میں ہے تو اس نے اپنے کھیل کو ریاست کی ان دیواروں کی طرف بڑھا دیا جہاں سے ایک اینٹ اٹھانے اور ایک اینٹ لگانے سے قبل ہزار دفعہ سوچا جاتا ہے کیونکہ کسی بھی ریاست کی بقا کے لئے اس کی خارجہ پالیسی اہم ستون ہوتی ہے ۔
وہ تو محض اک کھلاڑی تھا سو اس نے ریاست کی سب سے اہم اور نازک رگ کے ساتھ کھیل کھیلا اسے خبر تھی کہ یہ کھیل ریاست کے ساتھ دشمنی ہے ۔لیکن اسے اقتدار سے پیار ہو چکا تھا اسے ریاست کی قیمت پر بھی اقتدار چاہئے تھا سو اس نے ایسا کھیل کھیلا کہ ریاست کو بین الاقوامی سطح پر نقصان کا سامنا ہوا ۔قوم تقسیم ہوئی۔
اس نے اپنے پرنسپل سکیر ٹری کے ساتھ مل کر ایک سازش تیار کی کہ امریکہ نے خط لکھ کر دھمکی دی ہے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک معمول کا مراسلہ ان کے ہاتھ لگا تھا ۔اس مراسلے میں نہ دھمکی تھی نہ سازش ۔۔۔
۔کھلاڑی پریشان ہو گیا کہ اب کیا کریں تو اس کا حل پرنسپل سکیر ٹری نے یہ نکالا کہ ہم اس معمول کے خط کو سازش اور دھمکی کا خط بناتے ہیں اسے ریکارڑ کا حصہ بناتے ہیں اس کی اپنی مرضی کی وضاحت کرتے ہیں ۔
کھلاڈی نے تو اپنا اقتدار بچانا تھا لیکن حیرت ہے اس بیو رو کیریٹ پر جس نے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اس نے اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے کھلاڈی کے مفاد کے لئے نہ صرف ریاست کو اپنے ناپاک کھیل کا نشانہ بنایا بلکہ دونوں نے ملکر عوام کے جذبات کے ساتھ بھی خوب کھیلا ۔
کھلاڈی نے تیئس مارچ کے جلسے میں پرنسپل سکیر ٹری کا تیار کردہ جعلی خط لہرا کر کہہ دیا کہ ایک ملک نے میرے اقتدار کے خلاف سازش کی ہے اس کے اندھے مقلدین نے واہ واہ کر دی ۔۔
بات صرف یہاں ختم نہ ہوئی کھلاڈی اقتدار سے باہر ہو گیا اور جاتے جاتے ملک کی معاشی دیوار پر توپوں سے گولے برسا کر گیا اور آنے والی حکومت کے لئے ایسی مشکلات کھڑی کر گیا کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔۔
کھلاڈی کا کھیل صرف یہاں نہ رکا اس نے اپنی انا اور ضد کے لئے پہلے ریاست کی خارجہ پالیسی کے ساتھ کھیلا ۔معیشت کے ساتھ کھیلا۔جب پھر بھی مقاصد حاصل نہ کر سکا تو اپنے وزیر خزانہ کے ساتھ ملکر ایسا کھیل کھیلا کہ کوئی دشمن بھی تصور نہیں کر سکتا ۔
آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا کہ پاکستان کو فنڈ نہ دے۔۔۔۔جب اقتدار میں نہیں آیا تھا تو   کہہ دیا کہ بجلی کے بل پھاڑ دو ۔ٹیکس نہ دو اورسیز پاکستانی بنکوں سے رقم نہ بیجھیں ۔جب اقتدار سے چلا گیا تب بھی آئی ایم کو خط لکھ دیا کہ پاکستان کو فنڈ نہ دے ۔۔۔کسی اور ملک میں ایسی حرکت کوئی کرتا تو اسے الٹا لٹکا دیتے لیکن چونکہ کھلاڈی ریاستی اداروں میں کچھ زمہ دارا شخصیات کا لاڑلا تھا کھلاڑی کی طرف سے کھل کر ملک دشمنی کرنے پر بھی روای چین لکھتا رہا۔۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔۔
کھلاڑی کو کھیلنے کا اتنا شوق ہے کہ اس نے ریاست کے ساتھ کھیلا۔معیشت کے ساتھ کھیلا۔آئین کے ساتھ کھیلا۔قانون کے ساتھ کھیلا۔ہر ریاستی ادارے کے ساتھ کھیلا۔عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلا۔اسلام کے ساتھ کھیلا۔اپنے مقلدین کے ساتھ کھیلا۔اپنے محسنوں کے ساتھ کھیلا۔
لیکن چونکہ وہ سسٹم کا لاڈلا ہے اس لئے کھیل کھیل میں ملک کے ساتھ ڈٹ کر اور کھل کر دشمنی کرنے والے اس کھلاڈی کو کوئی کچھ نہیں کہے گا اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button