خواتین سپورٹس گالا: جذبات نہیں سنجیدگی کا طالب
اس میں دو رائے نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں الحمد اللہ مسلمان بستے ہیں اور یہاں ایک ایسی ثقافت کے اثرات ہیں جس پر اسلام کی چھاپ کہیں نہ کہیں نظر آتی ہے ، بدقسمتی سے قبائیلی و علاقائی رویوں کے حصار میں اسلام کے روشن اقدار بعض دفعہ قبائیلی رجحانات کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں پھر ایسے میں سماجی ڈھانچے کی بڑھوتری کی بنیادی محرک ” خاتون” کبھی ایک بےبس کردار تو کبھی ایک بے لگام کردار کے طور پر سامنے آجاتی ہے ، اسلام اور علاقائی ثقافت کو الگ الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے اور عمرانیات کے ماہرین کے مطابق تمام مذاہب ثقافت کے ایک جز ہی ہیں جبکہ بطور مسلمان ہم یہ سمجھتے ہیں اسلام زندگی کا دستور ہے جس میں زندگی کے سارے امور زیر بحث ہیں یہاں تک کہ اوڑھنے بچھونے سے لیکر کھیل کود اور کھانے پینے سے لیکر اٹھنے بیٹھنے تک تمام مسائل کا حل اسلام کے زریں اصولوں میں پنہاں ہیں ، اسلام میں ” عورت” ایک بہت بڑا حوالہ ہے اور یہ موضوع کافی زیادہ زیر بحث بھی ہے چونکہ میں اسلامی تاریخ کا نہ تو طالب علم ہوں اور نہ ہی کسی دینی ادارے کا فارغ التحصیل مگر اتنا ادراک ضرور ہے کہ عورت ہی معاشرے کا اساس ہے، جس طرح مردوں کے حقوق متعین ہیں عین اسی طرح عورت کو بھی اسلام نے اعلی مقام عطا کیا ہے ، یہ مقدس ہستی کہیں ایک ماں تو کہیں بیوی اور کہیں بہین جیسے ارفع سٹیٹس کی حامل ہے، جس قدر یہ وجود مقدس ہے اس طرح اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ، اسلام میں خواتین کے آپس میں کسی غیر محرم مرد کی موجودگی کے بغیر کھیل کود کی ممانعت نہیں ہے، ایک خاتون کی صحت مند سرگرمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کیلئے ہے، ورزش یکساں طور پر مرد عورت کیلئے ضروری ہے، عورت سماجی گاڑی کا اہم پہیہ ہے جس کے بغیر زندگی کی گاڑی کو کیسے چلایا جائے گا؟ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مردوں کی تعداد عورتوں کے برابر ہو وہاں خواتین کی اشترک کے بغیر سماج کیسے پرورش پائے گا، ارادی طور پر عورت اور ثقافت کے نام پر جان بوجھ کر بے حیائی پھیلانا الگ بات ہے ورنہ خواتین کی صحت مند زندگی، انکی ذہنی ترقی اور شعور کو بڑھاوا دینے کیلئے صحت مند سرگرمیوں کا انعقاد خوش آئیند ہے ہمیں آنکھہ بند کر کے جدیدت کے خوف میں مبتلا ہونے کے بجائے جدیدت کو اپنے قالب میں ڈھالتے ہوئے مستقبل کے چیلجنز سے شعوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے ورنہ وقت کا بے رحم اڑدھا ہمیں کھا جائے گا، ایک پڑھی لکھی، شعوری اور صحت مند ” ماں ” صحت مند معاشرے کی دلیل ہوتی ہے، جس معاشرے میں خواتین کو سماجی ترقی کے روڈ میپ سے دور رکھا جائے گا وہ سماج جمود کا شکار رہے گا، وہاں کسی بھی قسم کا پراگرس نہیں ہوگا ، حکومت کی طرف سے خواتین کیلئے منعقدہ سپورٹس گالا کے حوالے پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور سپورٹس میلے میں غیر محرم مردوں کی ممانعت کے ساتھ خواتین کے مابین اس صحت مند سرگرمی کو کرنے دیا جائے، اس معاملے کو اب اناؤں کا مسلہ بنا کر جزباتی رویے کے اظہار کے بجائے سنجیدگی سے لیا جائے، میری گزارش ہے تمام اسٹیک ہولڈرز سے کہ وہ علاقائی ثقافت کے اندر رہتے ہوئے خالص خواتین میلے کو سب ملکر کامیاب بنائیں اور جن اکابرین کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اسے مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے دور کیا جائے ۔۔۔۔