صحتعوامی مسائلچترال

چترال کے سرحدی گاوں میں واقع واحد ڈسپنسری دس سالوں سے بند، علاقہ مکین دربدر

چترال(گل حماد فاروقی) تحصیل دروش کے نہایت جنوب میں واقع ارندو روڈ پر آرکروئی گاؤں  کے ہزاروں مکین صحت، تعلیم، مواصلات اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں۔ اس علاقے میں سابق صوبائی وزیر بہبود آبادی سلیم خان چترالی نے ایک سول ڈسپنسری کیلئے فنڈ فراہم کرکے عمارت تعمیر کروایا مگر دس سے  ہسپتال کا یہ عمارت ابھی تک بند پڑی ہے۔
ویلیج کونسل آرکرو ئی لنگور بٹ کے ناظم قاری محمد دائم نے ہمارے نمائندے کو بتایا  کہ آرکروئی میں 2011 کو ایک سول ڈسپنسری تعمیر ہوئی ہے مگر بدقسمتی سے یہ ڈسپنسری ابھی تک بند پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بار بار ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چترال اور ضلعی انتظامیہ کو درخواستیں دی کہ اسے کھول دیا جائے تو جواب میں یہ بتایا جاتا ہے کہ جہاں یہ سول ڈسپنسری تعمیر ہوئی ہے تو  زمین کے مالک  اس  کے عوم ملازمت مانگتا ہے مگر ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔
ویلیج کونسل آرکروئی لنگوربٹ کے ناظم قاری محمد دائم نے پیشکش کی کہ اگر زمین کے مالک کو اعتراض نہ ہو تو ہم اس کے بدلے ہم اتنی ہی زمین اس کو دینے کو تیار ہیں مگر ہمارا مسئلہ حل ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اگر محکمہ صحت چاہے تو ہم ان کو متبادل زمین دینے کو بھی تیار ہیں یا تو اس ڈسپنسری میں عملہ بھیج کر اسے کھول دیا جائے یا پھراس کے مالک کو اس  زمین کے بدلے ہم زمین دینے کو بھی تیار ہیں اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ہم حکومت کو دوسری جگہہ زمین دیکر اس پر ہسپتال تعمیر کروائے۔ انہوں نے کہا کہ آرکروئی ایک پسماندہ علاقہ  ہے یہاں صحت کے حوالے سے کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرد حضرات تو کسی لکڑی لانے والے ڈاٹسن پر بھی اوپر چڑھ کر دروش یا چترال ہسپتال جاسکتے ہیں مگر خواتین کو علاج معالجے کے سلسلے میں نہایت مشکلات کا سامنا ہے انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی تربیت یافتہ دائی بھی نہیں ہے تو زچگی کے دوران خواتین کو دروش یا چترال ہسپتال لے جانا پڑتا ہے مگر سڑک کی حالت اتنی حراب ہے کہ یہ خواتین یا تو راستے میں بچے جنم دیتی ہیں یا پھر جاں بحق ہوتی ہیں۔قاری محمد دائم نے کہا کہ آرکروئی سے دروش یا چترال ہسپتال کو خواتین مریضوں کو لے جاتے وقت چار پانچ گھنٹے لگتے ہیں اور یہ ان کی زندگی اور صحت کیلئے بھی نہایت حطرناک ہے۔ اس دوران ان کی جان بھی جاسکتی ہے۔
ویلیج کونسل ارندو کی منتحب خاتون کونسلر  شان بی بی نے کہا کہ میں میرکھنی سے لیکر پاکستان کے آحری حصے یعنی ارندو تک خواتین کی نمائندگی کرتی ہوں مگر ہماری خواتین علاج معالجے اور تعلیم کے سلسلے میں نہایت مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے یونین کونسل میں کوئی خاتون ڈاکٹر نہیں ہے بلکہ دیہی مرکز صحت ارندو کی لیڈی ہیلتھ ورکر بھی گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتی ہے اور خواتین زچگی کے دوران اکثر مرجاتی ہیں۔ انہوں نے کہا ک ہم بھی پاکستانی ہیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں بھی ہمارا بنیادی حقوق دے اگر حکومت ہمیں پاکستانی نہیں مانتے تو ہمیں پھر راہداری دیکر ہم پڑوسی ملک افغانستا کو ہجرت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
آرکروئی کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں علاج کے سلسلے میں ہمیں نہایت مشکلات کا سامنا ہے۔ ویلیج کونسل ارکروئی کے ناظم قاری محمد دائم نے ضلعی انتظامیہ، صوبائی سیکرٹری صحت، وزیر صحت اور وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ سے پرزورمطالبہ کیا ہے کہ ویلیج کونسل آرکروئی میں واقع دس سالوں سے بند ڈسپنسری کو فوری طور پر کھول دیا جائے اور زمین کے مالک کے ساتھ محکمہ صحت اپنا تنازعہ فوری حتم کرے تاکہ یہاں کے عوام کو اس ہسپتال کے کھولنے سے سہولیت میسر ہوسکے بصورت دیگر یہاں کے مجبور عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے اوراپنے جائز حق کیلئے راست قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button