کالمز

تشدد

تحریر۔ شہناز علی

انسان کے لیے آسائشوں کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی ہیں ۔اس بدلتی دنیا میں ہر ایک کو سکون کی تلاش ہے، کیونکہ زندگی الجھنوں کا نام ہے، جسے سلجھاتے سلجھاتے شام ہو جاتی ہے۔ یوں تو لوگوں کے پاس پیسہ اور آرام کی کمی نہیں ہے۔ بس ہے تو سکون کی کمی ہے ۔انسان کی زندگی انمول ہے پر لوگ ایسی زندگی کا چراغ گل کردیتے ہیں ۔جب جینا حرام ہو جائے تو بعض لوگوں کے نزدیک مرنا حلال ہو جاتا ہے۔

ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں عجیب و غریب لوگ بستے ہیں۔ ہر ایک کا دماغی توازن مختلف ہے۔ مختلف سوچ رکھتے ہیں ۔ٹیکنالوجی نے زندگی ایک طرف سے آسان کردی ہے اور دوسری طرف سے مشکل بنا دی ہے۔ وہ وقت کمال کا تھا جب لوگ پیار سے رہتے تھے محبت بانٹتے تھے۔ اب صرف مطلب کے لیے محبت اور مطلب کے بعد بد نامی ۔

ایسے خوفناک حالات ہیں کہ انسان دنگ رہ جائے۔ آج انسان دوسروں کو بے عزت کرنے کے مواقعے ڈھونڈنے کے درپے ہے۔ سچی محبت اور خلوص دور دور تک نہیں، حالانکہ ہم سب ایک معاشرہ اور خاندان کا حصہ ہیں۔ چاہے باپ ، بیٹے یا ماں بہن یا پھر ایک فرد کی شکل میں۔ معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کریں ۔پر آج کل جس طرح حضرتِ انسان، جسےاشرف االمخلوقات ہونے کا دعوی  بھی ہے، وہی یہ انسان ایک دوسرے کا جسم اور عزت نوچتے ہیں۔ ہر کوئی حوس پرست ہیں۔ فرق بھول گیے ماں، بہن، بیٹیوں اور جانور میں۔

اگر سوچا جائے تو اس معاشرے میں جو بڑے مسلمان بنے پھرتے ہیں وہی آٹھ سالہ یا پندرہ سالہ بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے کہ یہاں انسان رہتے ہیں یا کوئی اور مخلوق۔ حیوان بھی تو آج کے انسان سے بہتر ہے ۔

عورت اللہ کی رحمت ہوتی ہے کیونکہ ماں عورت ہی ہے جس کے پاؤں تلے اللہ تعالیٰ نے جنت رکھا ہے پر ہمارے معاشرے میں ہزاروں مائیں ایسی ہیں جو شوہر کے تشددکے شکار ہیں یا سسرال والے اسکے اوپر ہاتھ اٹھانے میں عار نہیں سمجھتے، یا معاشرے کے لوگ باتیں کرتے ہیں۔ اس ظلم کے باوجود عورتیں اپنے بچوں کی خاطر ہر مشکل برداشت کرتی ہیں!

ہم ایک دوسرے کو زہنی آزمائش دینے کے پیچھے ہیں۔ کوئی محبت یا بھروسہ کے لائق سمجھ کے اپنے خیالات یا پراییوٹ لائف شیر کرے تو کل رشتہ ٹوٹنے پر انہی نجی رازوں کو میڈیا پر اچھال کر لوگوں کی عزت اچھالتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایسی چیزوں کے تاک میں ہوتے ہیں کہ کب کوئی جبر آجائیے اور ہم مل کے تماشہ لگائیں ۔

انہی مجرمانہ اور غیر انسانی رویوں کے باعث لوگ اپنی زندگیوں سے تنگ آجاتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ غمگساری کرنے، سہارا دینے، یا ساتھ دینے کی جگہ نہیں، بلکہ ایک بازار بن چکا ہے جہاں آئے روز کسی کی عزت کا تماشہ ہوتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اس خبر کو آگے پھیلاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ انکے گھر میں بھی ماں بیٹیاں ہیں ۔ فقط مشکلات کو بڑھانے والے زیادہ اور گٹھانے والے کم رہے گیے ہیں ۔ محبت کی زبان کوئی نہیں سمجھتا ہے۔ افسوس ہے لوگ پیسوں کی زبان سمجھتے ہیں ۔ اور یہ وہ بازار ہے جہاں عزت کی بولی لگتی ہے اور لوگ بک جاتے ہیں ۔

گلگت بلتستان میں عورتوں کے لئے ہر جگہ مشکلات ہیں۔ بس ہر ایک اپنے اولاد کی خاطر برداشت کرتے ہیں۔ آج کل لباس کو دیکھ کے کردار اخذ کرنے والوں کو ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ خود کتنے گناہ گار ہیں!

ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے پیچھے پڑے ہیں نفرتیں پیدا کر رہے ہیں اگر خود کو جھنجھوڑیں گے تو معلوم ہوگا ہم خود کتنے پاک و صاف ہیں اور کتنے ناپاک۔

گلگت بلتستان میں خواتین کے لیے ایسی جگہوں کا ہونا ضروری ہے جہاں وہ اپنے مسلے کھل کے بتا سکیں اور جو تشدد کے بعد بھی معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں انکے لیے ایسے سخت قانون اور سزائیں ہونی چاہیے کہ اگلی بار انہیں جرم کرتے وقت ان کی روح کانپ جائے۔

ہم سب کے گھر میں ماں اور بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اچھی توفیق دے اور ہم کو برے کاموں سے دور رکھے ۔ گزارش ہے کہ کسی اور کی عزت کو اچھالنے سے پہلے سوچیں کہ آپ کے گھر میں بھی ماں بیٹیاں بیٹھی ہیں۔ کل کس کی عزت اچھالی جائے گی، کسی کو کیا خبر؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button