کالمز

ویلڈن گلگت بلتستان پولیس

سب سے بیشتر میں ان تمام افراد کا مشکور وممنون ہوں جنہوں نے رشتہ و تعلق کے واسطے میری پیاری مامی اور میری ساسوں اماں کی شہادت پر  بنفس نفیس اورمختلف ذرائع ابلاغ کی وساطت سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔  اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب کو اس کا اجر لاکھوں خوشیوں اور برکتوں کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین!

  22 دسمبر کو نورکالونی جوٹیال میں ڈکیتی کی واردات کے دوران ایک نہتی خاتون، چار بچوں کی ماں کے سفاکانہ قتل کے دلخراش واقعے سے تو سبھی اگاہ ہیں۔ ہر کوئی اس اندہناک سانحے پر افسوس کر رہا ہے۔ ہر جانب، ہر مکتب، ہر طبقہ فکر اور ہر درد دل رکھنے والے انسان نے اس واقعے کی مذمت اور واقعے میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی ساتھ عوام الناس کے ذہنوں میں اپنی نوعیت کے اس انوکھے واقعے سے متعلق طرح طرح کے سوالات بھی ابھر تے رہے۔ بعض لوگوں میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں بھی ہوئیں، اور  بعض کی بدگمانیاں بھی عروج پر رہیں۔

خود پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے  ایک حد تک واقعے کی نوعیت اور طریقہ واردات سمجھنے سے قاصر رہے۔ پولیس حکام کے ذہنوں میں واقعے سے متعلق طرح طرح کے شکوک وشبہات پائے جاتے رہے جن کی تسلی وہ متاثرہ خاندان سے وقتاً فوقتاً پوچھ گچھ کی صورت میں کرتے رہے۔ مگر گھر والوں سے  سوائے آنسو کےنکلنا کیا تھا۔ ایک اندھا قتل،ایک بے گناہ انسان کے خون کی ہولی ، ایک ماں کی آہ و بکا، بچوں کی چیخ وپکار، ایک ہنستے بستے گھر انے میں صف ماتم، ایک ایسا خوفناک واقعہ کہ جس کی روداد بیان کرتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہوں۔

 ایسی صورتحال میں گھر کے مکینوں کے پاس صبر وفکر اور خداوند کریم کے حضور سربہ سجود ہونے کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا۔ بالآخر بارگاہ الہی میں غمزدہ خاندان کی دعائیں قبول ہوئیں۔ پولیس حکام کی محنت رنگ لے آئیں اور واقعے کے مبینہ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔

صد آفرین پولیس کے اس افسر کو جنہوں نے کمال مہارت اور دانشمندی سے ملزمان کا سراغ لگایا، ان کی حرکات وسکنات کی نگرانی کی، مختلف حوالوں سے تصدیق کی اور پھر اپنے ماتحت عملے کے ذریعے 18 جنوری کو ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی۔  جس پر غمزدہ خاندان سمیت پریشان حال شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لے لیا۔

 پولیس حکام کے مطابق ملزمان نے دوران تفتیش اقرار جرم کرلیا ہے اور مزید انکشافات کے لئے تفتیش جاری ہے۔ اس انوکھے واقعے کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے عوام الناس میں پولیس کی کارکردگی بھی سوالیہ نشان بن چکی تھی۔ ہر طرف سے پولیس سے امیدیں وابسطہ تھیں کہ وہ کب اور کیسے اس اندھے قتل کے ملزمان کا سراغ لگا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کریگی۔ یہ امیدیں اور توقعات پولیس کے لئے کسی بڑے امتحان سے کم نہ تھیں۔ اس امتحان میں کامیابی پولیس کے لئے بطور ادارہ باعث فخر اور عوام کا پولیس پر اعتماد کا مظہر تھا۔الحمد للہ پولیس کو اس امتحان میں شاندار کامیابی ملی اور وہ عوام کے سامنے سرخرو ہوئی۔

سلام ہو  گلگت بلتستان پولیس کے بہادر اور عوام دوست سپہ سالار انسپکٹر جنرل پولیس جناب وزیرمحمدسعید صاحب کو جو نہ صرف اس واقعے کے فوری بعد غمزدہ خاندان سے تعزیت اور ہمدردی کے لئے گھر تشریف لائے بلکہ متاثرہ خاندان کی خواہش اور اصرار پر محکمہ پولیس کے ہونہار افیسر اور دھرتی ماں کے قابل فخر سپوت ڈی آئی جی کرائمز سلطان فیصل کو تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ جبکہ ضلعی پولیس کے مایہ ناز اور بے داغ آفیسر انسپکٹر سہیل عباس کو واقعے کا تفتیشی افسر مقرر کردیا۔

ساتھ ہی ساتھ آئی جی پولیس نے غمزدہ خاندان کو دوٹوک الفاظ میں یہ باور کروایا کہ گلگت جیسے چھوٹے سے علاقے میں اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاری کوئی مشکل کام نہیں۔ البتہ اس میں تھوڑا سا وقت لگ سکتا ہے جس کے لئے متاثرہ خاندان کو صبروتحمل اور تحقیقاتی ٹیم سے تعاون کی ضرورت ہے۔ آئی جی پی صاحب کی ان باتوں سے متاثرہ خاندان کو امید مل گئی کہ ڈی آئی جی سلطان فیصل جیسے افسران کی سربراہی اور سہیل عباس جیسے تفتیشی آفیسر کی موجودگی میں پولیس ٹیم اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لے گی۔ چنانچہ ہوا وہی جس کا آئی جی پی وزیرسعید صاحب نے یقین دلایا تھا۔

 اس واقعے کی تحقیقات میں ڈی آئی جی سلطان فیصل اور انسپکٹر سہیل عباس کے علاوہ ڈی آئی جی گلگت رینج فرمان علی، ایس ایس پی گلگت شہباز الہی، ایس ڈی پی او جوٹیال معارج جلیل، ایس ڈی پی او سٹی حمید، انسپکٹر سی ٹی ڈٰی بشارت حسین،ایس ایچ او جوٹیال تھانہ جعفری صاحب اور ان کے عملے نے جس قدر محنت اور جانفشانی سے کام لیا اس کی تعریف کے لئے میرے پاس الفاظ ہی نہیں۔ علاوہ ازیں ملزمان کے تعاقب اور گرفتاری میں بھی انسپکٹر سہیل عباس اور انسپکٹر بشارت حسین اور ان کی ٹیموں نے جو کردار ادا کیا وہ بھی لائق تحسین ہے۔

 اس واقعے میں ملوث مبینہ ملزمان کی گرفتاری اور اقرار جرم کی تصدیق کے بعد ایس ڈی پی او جوٹیال معارج جلیل کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے اپنی پریس بریفنگ میں تو کیا۔ مگر اس حوالے سے مزید کارروائی ہونا ابھی باقی ہے۔  جیساکہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ یہ واقعہ کوئی ذاتی چپقلش یا خاندانی دشمنی کا شاخسانہ نہیں، نہ ہی کوئی عزت و ناموس کا معاملہ ہے۔ یہ محض ایک چوری اور ڈکیتی کی واردات تھی جس کا اعتراف پولیس اور خود ملزمان نے کیا ہے۔ چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت کے واقعات محض ایک خاندان کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے المیہ ہوتے ہیں۔

 اس طرح کے واقعات سے عوام  میں خوف وہراس پھیل جاتا ہے۔ معاشرے میں بدامنی، انتشار اور لاقانویت کو فروغ ملتا ہے جو عوام کی جان ومال کے لئے خطرے کا سبب بن جاتا ہے۔ واقعتاً ایسا ہی ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد جوٹیال ایریا میں ایک عجیب سی کیفیت ہے۔ خوف وہراس کے ستائے ہوئے کہیں پر گھر کی دیواریں اونچی کر تے نظر آتے ہیں تو کہیں چاردیواری پر کانٹے دار تاریں لگوائی جارہی ہیں، کہیں شکاری کتے پالے جارہے ہیں تو کہیں پر دفاعی حکمت عملی کے طور پر ہتھیار خریدنے کی بازگشت ہے۔ کہیں  نوجوانوں پر مشتمل محلہ کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں تو کہیں اسٹریٹ لائٹس اور سی سی ٹی وی کمیرے نصب کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ اس کشمکش میں پولیس کی جانب سے ایک اندھے قتل کے مبینہ ملزمان کی گرفتاری سے عوام الناس کو بڑا حوصلہ ملا ہے۔

 عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ ان کی پولیس سے وابستہ امیدیں مظبوط ہو گئی ہیں کہ ان کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی واقعے کے ملزمان قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔ ویلڈن گلگت بلتستان پولیس!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button