یہ تاریخ کی مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر عروج و کمال زوال و پستی کے عمل سے بھی گذرتا ہے اور پستی و زوال کو عروج ارتقاء میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔تاہم، عروج و زوال دونوں کے اسباب و علل ہوتے ہیں جن کا سراغ لگانے کے لئے وسیع مطالعہ درکار ہوتا ہے۔بہر حال، عروج و زوال کا یہ قانون مسلم امّت پر بھی لاگو ہوا اور مسلمان عروج و کمال کی بلندیوں تک پہنچنے کے بعد زوال پذیر بھی ہوگئے۔ظہورِ اسلام کے بعد مسلمان عروج و ارتقاء کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ وہ اپنے ایّامِ عروج میں سیاسی،سماجی، ثقافتی، معاشی اور عسکری میدانوں میں دنیا کی دوسری قوموں سے بہت آگے تھے اور بجا طور پر دنیا کی قیادت کر رہے تھے۔ اُس وقت اسلامی تہذیب دنیا کی عظیم ترین تہذیب تھی اور عسکری لحاظ سے بھی مسلمان سب سے بڑی طاقت تھے۔ انگریز مستشرق برنارڈ لیویس (Bernard Lewis)، جو عصرِ حاضر کے اسلامی مطالعات کے سب سے بڑے عالم گردانے جاتے ہیں،کی رائے میں اُس وقت صرف چینی تہذیب اسلامی تہذیب کے مدّ مقابل تھی۔ لیکن وہ سرزمینِ چین اور چینی نسل تک محدود تھی جبکہ اسلامی تہذیب ایک بین الاقوامی بلکہ عالمی تہذیب تھی۔ (Bernard Lewis. What Went Wrong?: Western Impact and Eastern Response, London, 2001, p. 18)
عسکری لحاظ سے مسلمانوں کی طاقت کا یہ عال تھا کہ گویا پوری دنیا ان کے زیرِ نگین تھی اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ یورپ و افریقہ اور ہند و چین کو فتح کر رہے تھے۔نیز اسلام اُس زمانے میں دنیا میں سب سے اہم معاشی طاقت کی حیثیت رکھتاتھا، اہلِ اسلام کی تجارت کا دائرہ ایشیا، یورپ اور افریقہ تک پھیلا ہوا تھا اور ان کے سامانِ تجارت کو ان برِّ اعظموں اوران کے مختلف ملکوں تک پہنچانے کے لئے ایک منظّم اور وسیع نیٹ ورک موجود تھا۔ وہ ایشیا کے متمدّن ملکوں کے ساتھ اشیائے خوردنی، خام مال اور مصنوعات کا تبادلہ کرتے تھے۔ مسلمانوں نے قریب قریب پوری انسانی تاریخ میں تہذیب و ثقافت کے مروّجہ علوم و فنون میں دستگاہ رحاصل کی تھی۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ، یونان اور ایران کے علم اور مہارتوں کو، جو انہیں ورثے میں ملے تھے، مزید صیقل دیا، ان میں اضافے کئے اور نِت نئے ایجادات و اختراعات سے انہیں غنی کر دیا۔اس غنی ترین ورثے سے اہلِ یورپ نے خوب فائداٹھایا اور جدید یورپی تہذیب و تمدّن کی بنیادیں استوار کیں۔
مگر پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی سے حالات برق رفتاری سے بدلنے لگے۔یورپ میں نشاۃ الثانیہ (Renaissance)کا آغاز ہوا، سائنس، ٹیکنالوجی اور ادب و ثقافت میں اہلِ یورپ نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور لمبی زقندیں لگا کر وہ مسلمانوں سے بہت آگے نکل گئے۔جبکہ اس یورپی ترقی و پیشرفت سے مسلمان عرصے تک بے خبر رہے۔ترجمے کی وہ عظیم تحریک جس نے صدیوں پہلے بہت سے یونانی، فارسی اور شامی کتب و رسائل کو عربی اور دیگر مسلم ادبیات میں منتقل کیا تھا اختتام کو پہنچی۔ جبکہ یورپ کا نیا سائنسی ادب ان کے لئے کلّی طور پر نا معلوم رہا۔برنارڈ لیویس کے بقول، اٹھارہویں صدی کے آخر تک صرف ایک طبّی کتاب کا مشرقِ وسطیٰ کی زبان میں ترجمہ ہوا تھا۔ (ایضاً)
مسلمان نہ صرف یورپ کے جدید میڈیکل سائنس سے نا آشنا رہے بلکہ اہلِ یورپ کی معیشت، صنعت و حرفت، تجارت، ٹیکنالوجی، عسکری تربیت،آلات و اوزار سازی سمیت سیاسی و سماجی علوم، جیسے تاریخ و عمرانیات میں محیّر العقول ترقی اور پیشرفت سے اہلِ اسلام لا تعلّق رہے۔ ان کی ذہنی و فکری سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، وہ فکری جمود کا شکارہوئے اور ان کے تخلیق و تحقیق کے سوتے خشک ہوئے۔بجائے اس کے کہ وہ نِت نئے ایجادات و اختراعات کرتے جزوی دینی و فقہی مسائل میں الجھے رہے، دیگر سماجی و ثقافتی میدانوں میں رجعت پسندی کا مظاہرہ کیا اور موروثی بادشاہوں اور جاگیرداروں کی اپنی سیاست و ریاست اور زر و زمین بچانے کے لئے بچھائے گئے سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے جھال میں پھنسے رہے اور اس سے چھٹکارہ حاصل نہ کر سکے۔ مسلمان عشروں بلکہ صدیوں تک اس پس ماندگی کو خیر باد نہ کہ سکے۔
جبکہ اس دورانیے میں اہلِ یورپ نے سائنسی و سماجی علوم میں بڑی تیزی سے ترقی کی جس کے سبب انہوں نے معیشت، تجارت، سیاست اور عسکری مہارت میں بے پناہ استحکام حاصل کیا۔ پھر کیا تھا کہ اہلِ یورپ برِّ اعظم یورپ سے نکل کر ایشیا و افریقہ کے وسیع و عریض خطّوں اور بیشتر ملکوں میں پھیل گئے اور وہاں معاشی و سیاسی بالادستی حاصل کی اور عرصہئ دراز تک یہ خطّے ان کے زیرِ نگین رہے۔ اہلِ یورپ نے برّاعظم امریکہ کو دریافت کیا اور وہاں ایسا استحکام حاصل کیا کہ آج امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور بنا ہوا ہے۔
اگرچہ، انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مسلمانوں میں بیداری کی تحریکیں چلیں، بہت سے نئے مسلمان ممالک معرضِ وجود میں آگئے، وسائل سے بھر پور سرزمینوں پر مالکانہ حقوق بھی انہیں حاصل ہوئے لیکن باین ہمہ یورپ و امریکہ کے معاشی و سیاسی غلبے سے آزاد نہ ہو سکے۔ کیونکہ مسلمانوں نے یورپی ترقی کے ایک ظاہری پہلو کو لے لیا لیکن اس کے باطن اور روح بلکہ جوہرِ اصلی سے بے گانہ رہے۔ آج بھی تاریخ کا مطالعہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ یورپ و ایشیاکے جدید سائنسی و سماجی علوم کے حصول کی سنجیدہ اور بارآور کوشش کریں اوراس کے بل بوتے پر اپنی معیشت اور سیاست کاقبلہ درست کرنے کی کوششوں کو بھی تیز تر کیا جائے۔ وگر نہ مزید مدّتِ مدید تک مسلمان پسماندگی اور زوال و ادبار کا شکار رہیں گے۔