گلگت بلتستان میں چائلڈ لیبر سے متعلق گورنمنٹ آف گلگت بلتستان اور یونسیف کے اشتراک سے منعقد ہونے والا سروے برائے سال ٢٠١٨ اور ٢٠١٩ جو کہ اکتوبر ٢٠٢١ میں شائع کیا گیا تھا، کے مطابق گلگت بلتستان میں ١٣ فیصد سے زائد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ یعنی ہر سات میں سے ایک بچہ مشقت کا شکار ہے جن کی مجموعی تعداد پچاس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ایسے انتہائی غیر صحتمندانہ ماحول میں کام کرتے ہیں جہاں ان کی جسمانی و ذہنی صحت خراب ہونے کے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق کا ادارہ یونسیف کے مطابق ١٨ سال سے کم عمر کے تمام افراد بچے کہلاتے ہیں۔ تاہم ١٦ سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینا ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں اس عمر کی حد چودہ سال ہے۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق چودہ سال سے کم بچوں سے مشقت لینا جرم ہے۔ جائلڈ لیبر یعنی بچوں کی مشقت سے مراد ملازمت، اجرت یا کسی بھی غرض سے ان سے ایسا بھاری کام لینا جس کی وجہ سے ان کی ذہنی، جسمانی اور نفیساتی صحت خراب ہوسکتی ہے اور وہ اپنی تعلیم، بچپن کی کھیل کود ، خوشی ، نشوونما اور پھلنے پھولنے کے مواقعوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ گلگت بلتستان میں چائلڈ لیبر کے علاوہ کچرا چننے، بھیک مانگنے، چھوٹے جرائم میں ملوث ہونے، رات گئے تک سڑکوں میں گھومنے، سکول کے اوقات میں سکول یونفارم پہنے شہر میں مٹر گشت کرنے اور نشہ کرنے والے بچوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔
گلگت بلتستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ صرف سروے کے بعد خاموشی اختیار نہ کرے بلکہ گلگت بلتستان میں ٢٠١۵ میں بچوں کی مشقت کے خلاف بنے ہوئے قانون پر من و عن عملدرآمد کو یقینی بنائے ۔ ان تمام بچوں کو مشقت سے نجات دلائے جو غربت، معاشی تنگ دستی، والدین کی ناسمجھی یا کسی اور وجہ سے مشقت اٹھانے پر مجبور ہیں۔ نیز ان تمام بچوں کی تعلیم اور صحت کے لئے فوری اقدامات اٹھا ئے جائیں جو تعلیم اور صحت تک رسائی کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ حکومت اس ضمن میں ایک مہم چلا سکتی ہے جس میں محکمہ تعلیم کا کلیدی کردار ہوگا۔ تمام سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو سہہ پہر کے بعد ایسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں تعلیم سے محروم بچوں کو لکھانے پڑھانے کے علاوہ ان کو ہنر دینے کے لئے کمیونٹی کے رضاکاروں یا فلاحی اداروں سے کام لیا جاسکتا ہے۔