کالمز
گورننس ، قانون کی بالادستی اور بیگمات
آفاق بالاور
اکیسویں صدی میں کسی شخصی حکومت میں بھی ایسے سکینڈلز نہیں بنے کہ کوئی فردِ واحد ، کوئی کنبہ ، خاندان یا گروہ اتنا طاقتور ہوا ہو کہ قانون پر حاوی ہوا ہو۔۔۔۔۔ صدام حسین اور قذافی جیسے بدنام ڈکٹیٹرز بھی اس صف میں اپنا نام نہ لکھوا سکے جس طرف وطنِ عزیز پاکستان گامزن ہے۔۔۔۔۔۔ سابق آرمی چیف باجوہ صاحب نے اعلیٰ عدلیہ کے بعض معزز جج صاحبان کا نام لے کے فرمایا ہے کہ ان کی بیگمات اور فیملیز ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔۔۔۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ آئین اور قانون کی تشریح فریقین کے چہرے دیکھ کر کی جائے۔ قانون کی تشریح کو تو چھوڑ دیجیئے۔۔۔۔۔۔ اب تو بیگمات کی تشفی کی خاطر قوانین ہی بدل دیئے جاتے ہیں۔
آج گلگت بلتستان گورنمنٹ کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ ڈاکٹرز کی superannuation (پنشن ہونے کی بالائی عمر کی حد) 60 سال کی بجائے 65 برس کی جا رہی ہے۔ تھوڑے استفسار۔۔۔ تھوڑی تحقیق سے معلوم ہوا کہ محترم چیف منسٹر صاحب کے سالے محترم ڈاکٹر ہیں جو گزشتہ ماہ ریٹائر ہونے والے تھے ان کی پنشن روک رکھی ہے تا کہ اس قانون سے مستفید ہو کر 5 سال مزید قوم کے نونہالوں پر احسان کر سکیں۔ کسی ایک فردِ واحد کی خاطر، بلکہ بیگم کے زیرِ اثر، قانون میں اس حد تک ترمیم کی کوئی مثال گلگت بلتستان کی تاریخ میں تو کم از کم نہیں ملتی ہے۔ چلیں اس بہانے ایسے باقی تمام ڈاکٹرز بھی مستفید ہونگے جو سرکاری و قانونی طور پر Expire ہو چکے ہیں۔ ایسے ڈاکٹرز جو گزشتہ چند ماہ میں ریٹائرڈ ہو گئے ہیں اپنی اپنی تاریخِ ولادت کو کوس رہے ہیں یا مرحوم والدین کو بد دعائیں دے رہے ہیں جنہوں نے سکول سرٹفیکیٹ میں اصل عمر لکھوائی۔ گانچھے کے ڈاکٹر عاشق نے تو غالباً ایکسٹنشین کی درخواست بھی کی تھی مگر ان دنوں صاحب بہادر کا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔ سو قانون ترمیم کرنے کا خیال نہیں آیا۔
رنگیلے چیف سیکرٹری صاحب بھی گرلزسکولوں کے پنک رنگوں سے وقت نکال کر مذکورہ فیصلے کو پھولوں کی چادر میں لپیٹ کر سراہ رہے ہیں اور اسے best practices around the globe کے کھاتے میں باور کرانا چاہتے ہیں۔ صاحب صاف کہیئے نا۔۔۔۔ سی ایم کی یہ ایک بات مان کر۔۔۔۔ دس باتیں اپنی منوانی ہیں سو آپ اس پر احسان کر رہے ہیں نہ کہ پوری قوم پر۔۔۔۔۔
ویسے یہ حالات دیکھتے ہوئے میں جی بی پولیس اور گلگت بلتستان کی بیوروکریسی کو ایڈوانس مبارکباد دینا چاہوں گا۔۔۔۔۔ صاحبان ابھی سے جشن منائیے کہ آپ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد مزید پانچ سال ہمارے سروں پر سوار رہیں گے۔۔۔۔۔ مزید پانچ سال سرکاری خرچ پر عیاشیاں کر پائیں گے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ پولیس اور بیورکریسی کا ڈاکٹرز سے کیا واسطہ۔۔۔ ؟؟؟ تو صاحبان ! واسطہ رشتے ناطے کا ہے۔۔۔۔۔ جب ایک سالے کی خاطر ریٹائرمنٹ پانچ سال ڈیلے کی جاسکتی ہے تو بیوروکریسی میں صاحب بہادر کے دو سالے اور پولیس میں سگا بھائی ہے۔۔۔۔ ہم تو مشورہ دیں گے کہ لگے ہاتھوں یہ بھی کر کے جائیے۔۔۔ نجانے پھر کبھی آپ کو وزارتِ اعلیٰ نصیب ہو نہ ہو۔
اور اگر آپ نہ بھی کریں ۔۔۔۔ کل کو انجینئرز ، پیرا میڈیکل سٹاف، نرسنگ حتیٰ کہ کلرک بھی عدالت جائیں گے اور اس امتیازی اقدام کو سب پر لاگو کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔ سو فریش گریجویٹس ۔۔۔۔۔۔ جوتوں کے چھ سات جوڑے مزید خرید لیں۔۔۔ ڈگریاں بغلوں میں دبائے آپ کو مزید پانچ سال گلگت کی سڑکوں پر خوار ہونا ہے۔۔۔۔۔۔ اب تو آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ Graduation Ceremony میں یہ ڈگری گول کر کے کیوں تھمائی جاتی ہے۔۔۔۔۔
یہ YDA کس مرض کی دوا ہے۔ گریجوئٹس ایسوسی ایشن کیا کر رہی ہے ؟ ان کا رول کب شروع ہوگا۔۔۔۔۔فریش ڈاکٹرز ، فریش انجنیئرز اور دیگر شعبوں میں تعلیم یافتہ نوجوان یا تو اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔۔۔ سیاسی و قانونی جد و جہد کریں ۔۔یا پھر کوئی کاروبار کر لیں یا ملک کے دیگر صوبوں میں جا کر پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی ملازمت تلاش کریں کیونکہ گلگت بلتستان میں جناب خالد خورشید صاحب کی حکومت ہے اور ابھی ان کے رشتہ داروں کا ریٹائرمنٹ کا موڈ نہیں ہے۔۔۔۔۔ وہ تو آپ شکر بجا لائیں کہ ان کے محترم والد صاحب پنشن ہو چکے ہیں ورنہ کیا خبر ججز کی ریٹائرمنٹ کی شق ہی ختم کر دی جاتی ۔۔۔یا سو سال کی حد رکھ لیتے۔