لاقانویت کا راج
عافیت نظر
گلگت بلتستان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں پرلاقانونیت کا راج ہے۔ یہاں ہرکوئی اپنے وضع کردہ طور طریقوں کو قانون سمجھتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے بہت سے سرکاری ادارے، پولیس، ایڈمنسٹریشن اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے ہی قانون شکنی میں پیش پیش ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال عوام الناس کے سامنے ٹریفک قوانین کو توڑنا ہے۔ یہاں سیکریٹریز، ڈی سیز۔ اے سیز، ڈائیریکٹرز کا بہت ہی ڈھٹائی کے ساتھ ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑانا عام سی بات ہے۔ جب ریاستی ادارے قانون شکنی میں پیش پیش ہوں تو عوام الناس بھی قانوں شکنی کو اپنانے میں تعامل کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ مذکورہ قوانین کے نفاذ کی برائے نام ذمہ داری پولیس ڈیپارٹمنٹ پر عاید کی جاتی ہے۔ مگر اس ادارے میں کام کرنے والے عمّال عملاً طاقتور لوگوں کو قوانین پر عملدرآمد کرانے کے حوالے سے بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ چونکہ عوام ہمیشہ سےلاقانویت کی جھکڑمیں رہی ہے اس لیے عوامی سطح پر کسی سیاسی یا دوسرے سماجی اداروں کی طرف سے دھیان اس نوعیت کے لاقانونیت کی جانب مبذول نہیں ہوتی۔ نتیجۃً لاقانونیت اپنے انتہا کو چھو رہی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ سالوں پہلے جب میں نے ایک سیکریٹری سے دریافت کیا کہ ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا۔ تو ان کا جواب تھا کہ یہ پولیس والوں کا کام ہے۔ جس پر میں نے جواباً کہا کہ یہ تو بچہ بچہ کو پتا ہے کہ ٹریفک کے قوانین کے نفاذ کہ ذمہ داری پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ہے۔ مگر جب سیکریٹریز، ڈی سیز، اور دوسرے سرکاری عہدیدار ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو ان کو روکنے والا کون ہے؟ وہ لاجواب ہوا اور بہت ہی مایوس کن جواب بس بدقسمتی ہے کہہ کر چلے گئے۔ اس سلسلے میں راقم نے اپنے تئیں مختلف ایس پیز، دوسرے افسران اور ایڈمنسٹریشن اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابسطہ لوگوں سے بھی بات چیت کی۔ حتیٰ کہ چیف سیکریٹریزاور وزیراعلی تک اپنے گذارشات اور مشوروں سے بھی تحریری طورپر آگاہ کیے۔ مگر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس لیے ایسے تاثر کا عام ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ٹریفک قوانین کیا، کسی بھی قوانین کا اطلاق بڑے اداروں میں بڑے عہدوں پر براجمان لوگوں کے مفاد میں نہیں۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے جہاں بہت سے حادثات رونما ہوتے ہیں وہاں ٹریفک کے شورشرابے سے بہت سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہورہے ہیں۔ گلگت شہر میں نوید شہید روڑ، ذولفقارآباد سے یونیورسٹی کی جانب مڑنے والی چوک پر ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور رونما ہوتے ہیں۔ اور کئی حادثوں کا میں ذاتی طور پر شاہد بھی ہوں۔ علاوہ ازین بہت سے بائیکرزجب اپنے بائیک سے پٹاخوں کی آوازیں نکال کر گرزتے ہیں توذہن ماوؐف سا ہوجاتا ہے اور لوگ بے بسی سے ایسے اذیت کو سہہ لیتے ہیں۔ بائیکرز کے اس احمقانہ حرکات کے علاوہ پریشر ہارن اوردوسرے بے ہنگم ٹریفک کی آوازوں سے جہاں بہت سے لوگوں کے ذہنی تناوؐ میں اضافہ ہوتا ہے وہاں صوتی آلودگی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ پارکنگ کرتے وقت بہت سے سرکاری و غیر سرکاری گاڑیاں استعمال کرنے والے اس احساس سے عاری نظرآتے ہیں کہ ان کے غلط پارکنگ سے دوسرے مسافروں کو ذہنی کوفت ہوتی ہیں اور انھیں دیگر مسائل درپیش آتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تجربہ راقم کوگلگت شہر میں کرنل حسن مارکٹ کے سامنے اس وقت ہوا جب کسی سرکاری ادارے کے ایک ڈرائیورکی غلط پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام ہوا۔ جب ہارن دینے پر بھی وہ ٹھس سے مس نہ ہوا اور ہمیں مجبوراً رانگ سائیڈ سے گاڑی کو وہاں سے نکالنا ہوا۔ میں نے اپنے گاڑی کو ایک مناسب جگہ پر پارک کرنے کے بعد جب اس گاڑی کے پاس آکراس ڈرائیورسے غلط پارکنگ کی نشاندہی کی تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگے یہ فلان محکمہ کی گاڑی ہے ہم جہاں چاہیں روک سکتے ہیں۔ سڑک کے درمیان گاڑی روکنے اور پارک کرنے والوں اور دوسرے مذکورہ خلاف ورزیوں کو کوئی روکنے والا نہیں۔
یقیناً ٹریفک کے قوانین کا اطلاق صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ کے بس کی بات نہیں بلکہ اس سلسلے میں اجتماعی طورپر کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پر کام کرنے کی صورت میں ٹریفک کے مسائل کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
گلگت بلتستان میں بسنے والے تمام مسالک کے علما کے لے ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جس میں ٹریفک کے قوانین کے خلاف ورزی سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ان علماء کو عملاً ٹریفک کے نظام کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرنے کی حواصلہ افزائی کی جائے۔ جس میں مساجد، امام بارگاہوں، جماعت خانوں، خانقاہوں اور دوسرے عبادت گاہوں میں اس مفاد عامہ پرلوگوں کو باربارایورنس دینا شامل ہیں۔
چونکہ قومی تعلیمی نصاب میں ٹریفک کے قوانین سے متعلق گائیڈ لائنزاور مواد شامل ہیں اس لیے ان قوانین کے عملی اطلاق کے لیے سکولوں، اور خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹی لیول کے سٹوڈنٹس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور عملی اطلاق کے لیے ان کو پروجیکٹس دیکر دوسرے لوگوں کو بھی ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے ان سے کام لے کر حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اساتذہ کی تربیت اور رغبت کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ جس پر فوری طور پر پلان بناکر عملی جامع پہنانے کی ضرورت ہے۔
سیاسی و سماجی اداروں کی شمولیت سے بھی ٹریفک کے قوانین کے اطلاق میں مدد لی جاسکتی ہے اور ہر سیاسی جماعت اس لاقانونیت کی بیخ کنی کےلیے اپنے کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں کورکمانڈر گلگت بلتستان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے تاکہ معاشرے کے ہر شعبہؐ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد گلگت بلتستان کو ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے اپنا حصّہ ڈال کر اس سرزمین کو گلزار بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔