چترال: سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چترال کے ایک ہائی اسکول کے خلاف 16 سال مقدمہ بازی کرنے پر درخواست گزار اکبرالدین کو 15 ہزار روپے جرمانہ اور مقدمہ پر آنے والے اخراجات کی ادائیگی کا حکم دے دیا۔14 اپریل کو جاری سپریم کورٹ کے حکمنامے میں درخواست کو فضول مقدمے بازی اور عدالتی وقت کا ضیاع قرار دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں درخواست گزار’اکبرالدین‘ ضلع چترال کی تحصیل مستوج قصبہ ریشن کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں 9 ستمبر 1994 سے 16 نومبر 1995 تک، ایک سال کے لیے زیر تعلیم رہا۔ مذکورہ عرصہ تعلیم کے بعد، درخواست گزار نے اسکول انتظامیہ سے کریکٹر سرٹیفکیٹ کا مطالبہ کیا۔
تاہم اسکول انتظامیہ نے کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ ’اکبرالدین امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا، اس سے نقل کا مواد برآمد ہوا جس پر غصے میں آ کر اس نے گالیاں دیں اور امتحانی پیپر پھاڑ کر پھینک دیا، جس پر اس کا نام اسکول سے خارج کر دیا گیا‘۔واقعے کے بارہ سال بعد 27 فروری 2007 کو اکبر الدین نے اسکول انتظامیہ کے خلاف سول عدالت میں کریکٹر سرٹیفکیٹ کے حصول اور اسکول کی جانب سے ہرجانے کی ادائیگی کے لئے مقدمہ دائر کردیا۔
10 ستمبر 2009 کو عدالت نے اسکول انتظامیہ کو ہدایت کی کہ اکبر الدین کو گزشتہ متن کے برعکس کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے لیکن عدالت نے ہرجانے کے لئے اکبر الدین کی استدعا مسترد کر دی۔ اس پر اکبرالدین نے اپیل دائر کی جس پر 6 مارچ 2010 کو اسکول انتظامیہ کو 20 ہزار روپے جرمانے کا حکم سنایا گیا۔ اسکول انتظامیہ نے اس حکم نامے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر عدالت نے اپیل منظور کرتے ہوئے اسکول انتظامیہ کو جرمانے کی ادائیگی کا حکم منسوخ کر دیا۔
بعد ازاں 7 دسمبر 2012 کو اکبر الدین نے سینئر سول جج چترال کی عدالت میں ایک اور مقدمہ دائر کر دیا جس میں اس نے اسکول انتظامیہ سے 42 لاکھ 61 ہزار روپے ہرجانے کا مطالبہ کیا۔ اسکول انتظامیہ کی جانب سے اس مقدمے کے خلاف دائر درخواست، اور بعد ازاں اپیل مسترد کر دی گئی۔ جس پر اسکول انتظامیہ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو منظور ہو گئی اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے اکبرالدین کو ہرجانے کی ادائیگی کا حکم منسوخ کر دیا گیا
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مذکورہ مقدمے کی سماعت کی جبکہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالتی اور قانونی عمل کو جس برے طریقے سے اس مقدمے میں استعمال کیا گیا ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ درخواست گزار صرف ایک سال کے لئے مذکورہ اسکول میں زیر تعلیم رہا اور جب اس نے کریکٹر سرٹیفکیٹ کا تقاضا کیا تو اول الذکر مندرجات کے ساتھ اسے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا گیا۔
اس کے بعد درخواست گزار نے کسی طریقے سے ایک صاف ستھرا کریکٹر سرٹیفکیٹ حاصل کر لیا لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں ہوا اور واقعے کے کئی سال بعد اس نے مقدمہ دائر کر دیا۔ یہ مقدمہ زائد المیعاد ہونے کے باوجود عدالت میں سنا گیا۔ ہائی کورٹ نے اس عدالتی عمل کے برے استعمال پر روک لگائی لیکن درخواست گزار اکبرالدین کی ہمت پھر بھی نہیں ٹوٹی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لکھا ہے ہائی کورٹ سے مقدمہ ہارنےکے باوجود اکبرالدین نے اسکول کے خلاف مقدمے بازی جاری رکھی جس میں اسکی سپریم کورٹ میں زیر سماعت اپیل بھی شامل ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ صریحاً فضول مقدمے بازی کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالتوں نے غیرضروری طور پر اکبرالدین کی درخواستیں سنیں اور اسکول انتظامیہ کو سالوں فضول مقدمے بازی میں الجھایا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے لکھا ہے کہ درخواست گزار نے عدالتوں کا قیمتی وقت اور عوامی وسائل کا ضیاع کیا۔ عدالت نے اکبرالدین کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ اکبر الدین نہ صرف مقدمے پرآنے والے اخراجات ادا کرے بلکہ اسکول کو 15 ہزار روپے کی ادائیگی بھی کرے