کالمز

سدپارہ ،شتونگ اور چُندا آبی ذخائر

ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ

جب امسال موسم بہار کے اوائل سے ہی سکردو میں پانی کی کمی شدت اور بحرانی صورت اختیار کرتی گئی، تب سے سدپارہ ڈیم کی گنجائش، آبی تقسیم، پانی کی استعمال میں کفایت شعاری کی ضرورت، بے ہنگم بڑھتی شہری آبادی وغیرہ جیسے اہم اور بنیادی سوالات اٹھنا اور اہمیت اختیار کرنا شروع ہوگئیں، وگرنہ ہم تو جب تک  پانی سرسے گزر نہ جائے کسی مسئلے کی منصوبہ بندی کے لیے کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے۔ معذرت کے ساتھ عوام کا کام احتجاج کرنا، میڈیا کا کام تنقید کے نشتر چلانا اور بزرگوں کا کام دعا، بد دعا یا تڑی دینا  رہ گیا ہے۔ جہاں تک حکومتی اور سیاسی اربابِ اختیار کا تعلق ہے تو معذرت کے ساتھ ایک نے نوکری کرنی ہے تو دوسری نے ٹرم پوری کرنی ہے۔  تذویراتی سطح (strategic level) کی منصوبہ بندی کے لیے یا تو نظام میں گنجائش نہیں، یا لوگ سنجیدہ نہیں۔ فائر فائٹنگ سے دن تو گزر جاتے ہیں، لیکن دیرپا سکون نہیں ملتا۔ پائیدار ترقی کے بنیادی عوامل میں فرصت کے وقت طویل المدت منصوبہ سازی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

بلتستان یونیورسٹی اس خطے کا اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی ادارہ ہونے کے ناطے خطے اور بالخصوص شہری ترقی کے حوالے سے پالیسی سازی اور منصوبہ سازی میں قابل عمل تجاویزکے ساتھ اپنے کردار کا بجا ادراک رکھتی ہے۔ تاہم عملی اقدامات کے لیےاس ضمن میں حکومتی حلقوں کی آمادگی اور شمولیت کے ساتھ ترقیاتی اداروں کی شراکت داری ضروری ہے۔

اس حقیقت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں اور مذکورہ بحرانی کیفیت نے ہمیں جھنجھوڑا بھی ہے، اگر ڈیم میں پانی پہونچنے میں چند دن اورلگ جاتے تو لگ پتہ جانے کا اندیشہ تھا۔ اس صورتحال سے ڈویژنل انتظامیہ تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر راقم نے ایک پریزینٹیشن بنا کر19مئی کوایڈیشنل کمشنر اور کمشنر صاحب کے سامنے پیش کیا۔ کمشنر صاحب نے اسے پسند کیا اور فوری طور ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی جس کا نوٹیفیکیشن اسی دن کردیا گیا۔ ڈپٹی کمشنرکو ہدایات دی کہ اس کمیٹی کی ٹی او آر TORپر میٹنگ کریں جس کے نتیجے میں اسی شام کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا اور کمیٹی کو دو سے تین کے اندر سروے کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایات جاری کردی۔ کمیٹی میں بلتستان یونیورسٹی سے ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ، واپڈا سے ایکسئین محمد کاظم، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) سے ایکسئین صفدر، انتظامیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر روندو انجنیئرطلحہ اسد اورجی بی ڈی ایم اے سے محمد زبیر کو شامل کیا گیا۔ کمیٹی کی ہنگاہمی میٹنگ شام کو ڈی سی آفس میں ہوا اور اگلے دن بیس مئی کو سد پارہ ڈیم میں پانی کی صورت حال اور قریبی نالوں میں دستیاب پانی کی ذخائر اور ان سے استفادہ کا جائزہ لینے کے لیے وزٹ کا فیصلہ ہوا۔کمیٹی کے اراکین جس میں ذبیر صاحب کے علاوہ باقی ممبران اور انجینئر سلیم شامل تھے ،ہفتے کو دن بھر مختلف نالوں اوران نالوں سے متصل چوٹیوں پر موجود جھیلوں کی موجودگی اور ڈیم تک دیوسائی نالہ سے پانی کی رسائی کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کیا ۔ اس رپورٹ کے نتیجے میں پہلی تجویز پر عمل کرتے ہوئے بائیس مئی کو سدپارہ پُل سے ڈیم تک پانی کی ضیاع کو کم کرکے تئیس تاریخ کی شام تک دیوسائی نالے کا پانی ڈیم میں داخل کرنے میں کامیاب ہوا جس سے انتظامیہ کے ساتھ شہریوں نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔  اس سلسلے میں انتظامیہ نے خاصی دلچسپی اور تندہی کا مظاہرہ کیا۔

پہلی تجویز فوری نوعیت کا تھا جس پر بر وقت عمل ہوا تا ہم  دیرپا حل کے لیے چند دیگر تجاویز بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔

دورانِ سروے ٹیکنیکل ٹیم کو معلوم ہوا کہ سدپارہ گاؤں کے دائیں اور بائیں جانب ایک طرف دو اور دوسری طرف تین جھیلیں موجود ہیں جن کومتصلہ نالوں کے ذریعے نیچے ڈیم تک لایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں رگیا یول نالہ کے اوپر رگیا یول لا کے اُس پار بھی ایک جھیل ہے جس کا پانی کم و بیش دس بارہ کلومیٹر سفر کرکے شتونگ میں شامل ہوتا ہے، جب کہ اس جھیل کا فاصلہ قریب ترین سدپارہ نالے سے تین سے چار کلومیٹرپر نیچے دیوسائی مین نالے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نصف نہ ہو تو کم از کم ایک تہائی شتونگ نہایت کم لاگت اور کم مدت میں سدپارہ ڈیم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔بروقت سروے اور منظوری ہو تو یہ کام اس سال بھی ممکن ہے۔  مناسب سہولت کاری دستیاب ہو تو انشأ اللہ آئندہ موسم بہار تک کم از کم  پندرہ سے بیس کیوسک پانی سدپارہ ڈیم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اس ضمن میں بنیادی تکنکی سروے کے لیے بلتستان یونیورسٹی کے طلبہ اور ماہرین کی خدمات لی جائیں، جس کا جائزہ متعلقہ سرکاری اداروں کے ماہرین لیں گے اور قابل عمل تجاویز دیں گے۔           

سکردو کے مختلف نالوں میں آئس ٹاور بنانے کی امکانات کا جائزہ لینے کے لیے کمشنر آفس سے جاری شدہ ایک اور لیٹر کی جواب میں بلتستان یونیورسٹی نے ایک مختصر اور جامع پروپوزل بھی جمع کرایا ہے جس کے مطابق سدپارہ نالہ، بُرگے نالا، رگیا یول نالہ، شگری بالا نالا، شگری کلان تھایور نالا، تنجوس، تندل، چُندا  اور ہوطو نالوں میں آئس ٹاورنگ کی تجاویز دی ہیں۔

اس کالم کی وساطت سے   اربابِ اختیار کے سامنے ایک اور اہم تجویز رکھنا چاہ رہا ہوں جس سے چُندا ، ہوطو اور گمبہ سکردو کو نہ صرف  پانی دستیاب ہوگا بلکہ سکردو کو خوبصورت بین الاقوامی سیاحتی مرکز بنانے میں بھی بڑی پیش رفت ہوگی۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں سکردو میں  ’’کچوری غونمو‘‘ کے نام سے جو گرد آلود ہوائیں چلتی ہیں جس سے پورے شہر کا حلیہ خراب ہوتا ہے، اس پر قابو پانے میں بھی مؤثر ہوگا۔ تجویز یہ ہے کہ چُندا  کے دوسرے گانگ سینگےکے قریب ایک بڑا جھیل ہے جس کا پانی کچورہ نالے میں جاتا ہے   اور کچورہ نالے کا پانی دریا میں ۔ اگر اس جھیل کو ڈائورٹ Divert کرکے چُندا نالے میں لائیں ، پھر نالے سے   سائفن کرکے کیڈٹ کالج  یا ائیر پورٹ کے سامنے چُنداٹوق  پر لاکر آبشار بنائیں جو خوشو چھومک  ایریا میں کہیں گرادے تو اس سے ایک طرف ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کو لینڈنگ کے وقت ایک دلفریب خیر مقدمی منظر میسر آئے گا۔ اس پانی کو دن کے وقت فلائٹ ٹائم پر آبشار میں چھوڑا جائے  جو ائیر پورٹ سے متصلہ ذیرین حصے کو سیراب کرے گا اور باقی اوقات میں منظم اوقات کارکے تحت  چُندا کے نواحی محلات اور ہوطو کو سیراب کرے گا۔ اگر اس منصوبے پر عمل ہو تو ائیر پورٹ ایریا کے خشک صحراؤں سے اُٹھتے گرد و غبار میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی۔ چُندا کا خشک پہاڑی سر سبز ہوگا اور کسی دیومالائی وادی کا منظر پیش کرے گا۔ مقامی  سینئر شہریوں کے مطابق اس جھیل سے چُندا نالے تک چند  ہزار فٹ  کا فاصلہ ہے۔ اس آپشن پر بھی سروے کیا جا سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے سکردو اور اس کے گرد و نواح میں قدرتی آبی ذخائر کی کمی نہیں ان آبی ذخائر کو دانشمندی اور احتیاط کے ساتھ منظم انداز میں ذیر استعمال لانے کی ضرورت ہے۔ 

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button