کوئی بھی ادارہ بُرا نہیں ہوتا
کوئی بھی ادارہ برا نہیں ہوتا، خواہ وہ تعلیمی ادارہ ہو، فلاحی ادارہ ہو یا کوئی اور۔ میں بذات خود ایک طالبہ ہوں اورمیں بھی تعلیمی اداروں سے منسلک رہی ہوں اور ماشاءاللہ سے ہر ادارے نے مجھے ایک اچھا انسان بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔
آج کل سوشل میڈیا پر بہت سارے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خاص کر تعلیمی اداروں کو کہ فلاں ادارے میں یہ ہو رہا ہے۔ ماحول خراب ہے، انتظامیہ خراب ہے یا پھر وہاں پڑھنے والے طلبہ خراب ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جب میں سوشل میڈیا پر ایسی کوئی خبر یا ایسی کوئی تحریر پڑھتی ہوں تو اس کے فوراً بعد میں کمنٹس سیکشن چیک کر لیتی ہوں جہاں ہزاروں لوگ اپنی اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ منفی توکچھ مثبت۔ کمینٹس سیکشن ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے آپ کو کچھ اور ملے یا نہ ملے لوگوں کی ذہنی سطح کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔
آج کل لوگ اپنی شادی بیاہ یا دوسری تقریبات کی تصاویر وغیرہ شیر کرتے رہتے ہیں تو ان کا کمنٹ سیکشن کچھ اس طرح کے جملوں سے بھر جاتا ہے جیسے نایس کپل ، واؤ ، ماشاءاللہ ، بہت خوب، اللہ جوڑی سلامت رکھے، وغیرہ وغیرہ ۔ اگر کوئی ادارہ کسی سرگرمی کے حوالے سے کوئی تحریر یا کچھ اور پوسٹ کرتا ہے تو کمنٹس سیکشن میں کچھ ایسے جملے ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں ایسے پروگراموں کی بجائے پڑھائی پر توجہ دیں ، اس ادارے کا ماحول خراب ہے ، انتظامیہ خراب ہیں، طلبہ خراب ہیں وغیرہ ۔
یہ سب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات آتے ہیں۔ چند لمحے کے لیے ہمیں سوچنا چاہیے اور غور وفکر کرنی چاہیے کہ ہم سب کسی نہ کسی مقصد کے تحت کسی نہ کسی ادارے سے وابستہ ضرور ہیں تو آیا جو لوگ تعلیمی اداروں میں کام کرتے ہیں ، فلاحی اداروں میں کام کرتے ہیں یا دوسرے اداروں میں کام کرتے ہیں وہ کسی اور دنیا کے رہنے والے مخلوق ہیں ؟ یا کسی اور سیارے سے آکر ہمیں خراب کر رہے ہیں ؟ اگر کسی ادارے کا ماحول خراب ہے تو کیا اس ادارے کے در و دیوار اس کے ماحول کو خراب کر رہے ہیں یا وہاں کی بے جان چیزیں ؟ اگر کسی ادارے کا ماحول انتظامیہ اور طلبہ مل کر خراب کر رہے ہیں تو آج کل ہمارے معاشرے بھی تو خراب ہو رہے ہیں پھر وہ کیوں خراب ہو رہے ہیں ؟ دن بہ دن برائیاں بڑھتی کیوں جا رہی ہیں ؟
وہ اس لیے کہ اپنے اپنے جگے پر ہم سب کہیں نہ کہیں خراب ہیں کیونکہ معاشرہ ہم ہی سے بنتا ہے اس کو ٹھیک کرنے والے بھی ہم خود ہی ہیں اور خراب کرنے والے بھی ہم خود ہی ۔ اگر کہیں پہ کچھ غلط ہو رہا ہے توکیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم مل کر اسے سدھارنے کی کوشش کریں اور ان مسلوں کا حل تلاش کریں جن کا سامنا آج ہم کر رہے ہیں لیکن نہیں ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ادارہ ہو یا معاشرہ خراب بھی ہم خود ہی کررہے ہیں اور لان تان بھی ہم خود ہی کو کر رہے ہیں، طنز بھی ہم خود ہی کرتے ہیں اور کیچڑ بھی خود اپنے ہاتھوں سے خود پر اچھالتے ہیں ۔ دنیا کے دوسرے ممالک ہر لحاظ سے ہم سے آگے نکل چکے ہیں کیونکہ وہ ہر معاملے میں دوسروں کو ٹھیک کرنے کے بجائے جود پر زیادہ کام کرتے ہیں ، دوسروں کے معاملے میں ٹانگ لڑانے سے پرہیز کر کے اپنے حالات سدھارنے پر توجہ دیتے ہیں ۔ اور افسوس کہ ہم پڑھ لکھ کر بھی جاہل ہی رہ گئے ہیں ۔ ہمیں تب تک سکون نہیں ملتا ہے جب تک دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے ہمیں اپنے گریباں سے زیادہ دوسروں کی گریباں میں جھانکنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ہمیں اپنی خبر نہیں لیکن ہمارے ارد گرد رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کا ضرور فکر ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ اچھا ہو رہا ہے تو کیوں ہو رہا ہے؟ اگر کسی کے ساتھ اچھا نہیں ہو رہا ہے تو اس کی کردار اور اس کی نیت کو ذمدار ٹھہرا ینگے۔ یہی وہ مقاصد ہیں جن کی وجہ سے ہم سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات عروج پر ہیں ۔ معاشرے میں برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ذمدار ٹھہرانے میں مصروف ہیں ، انسان دوسرے انسان کے ہاتھوں محفوظ نہیں ۔ اگر ہم سب دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے خود کو ذاتی طور بہتر بنانے کی بھر پور کوشش کریں تو آدھے سے زیادہ برائیاں خود بہ خود ختم ہو جائے گے ۔ یہ باتیں کڑوی ضرور ہے لیکن یہی سچائی ہے ۔۔